سیدنا امیر معاویہؓ

361

کاتب وحی، صحابی رسول، خلیفۃ المسلمین، جرنیل اسلام، فاتح عرب و عجم، امام تدبیر و سیاست، محسن اسلام سیدنا امیر معاویہؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپؓ کے لیے نبی اکرمؐ کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں، آپؓ کی بہن سیدہ سیدہ ام حبیبہؓ کو نبی اکرمؐ کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ امیر معاویہؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی اکرمؐ سے مل جاتا ہے۔ آپ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص، علم و فضل، فقہ و اجتہاد، تقریر و خطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی و سخاوت، اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب کتابت وحی ہے۔ نبی اکرمؐ نے جلیل القدر صحابہؓ پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کاتب وحی تھے، ان میں معاویہؓ کا چھٹا نمبر تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے معاویہؓ کو کا تب وحی بنایا تھا۔ (ازالۃ الخفاء)
سیدنا امیرمعاویہؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ نبی اکرمؐ کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ امیر معاویہؓ نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر رہتے، یہاں تک کہ سفر و خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔ ایک بار نبی اکرمؐ کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا امیر معاویہؓ پیچھے پیچھے گئے۔ راستے میں نبی اکرمؐکو وضو کی حاجت ہوئی، پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہؓ پانی لیے کھڑے ہیں، آپؐ بڑے متاثر ہوئے، جب وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے: معاویہ! تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا۔ معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہوگئی تھی کہ نبی اکرمؐ کی پیش گوئی صادق آئے گی۔
نبی اکرمؐآپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنے خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرما دی تھیں۔ علامہ اکبر نجیب آبادی رقمطراز ہیں: نبی اکرمؐ نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام بھی معاویہؓ کے سپرد کردیا تھا۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں آپ نے مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے۔ (تاریخ اسلام)
عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ امیر معاویہؓ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے، مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے، ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذاب معاویہؓ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں، اس میں امیر معاویہؓ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے۔ جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں سیدنا امیر معاویہؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کیا۔
سیدنا امیر معاویہؓ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد یہ چاہتے تھے کہ اسلام کو ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب کی حیثیت سے سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے۔ فتح قبرص کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔ بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا، اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی، اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ سیدنا عثمان غنیؓ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد امیر معاویہؓ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کر دیا جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔ 28 ہجری میں آپ پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریبا پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے، قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔ اس لشکر کے امیر و قائد خود امیر معاویہؓ تھے۔ آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں ابو ایوب انصاری، ابوذرغفاری، ابودردا، عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس سمیت دیگر صحابہ کرامؓ شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
نبی اکرمؐ نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی، ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کرے گا۔ پہلی بشارت سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب امیر معاویہؓ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرامؓ و تابعین دنیا کے گوشے سے دمشق پہنچے، ان میں عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول سیدنا ابو ایوب انصاریؓ اور مدینہ منورہ سے دیگر افراد شریک ہوئے جس کے بارے میں نبی اکرمؐ نے جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی تھی۔
32ھ میں آپؓ نے قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔ 35ھ میں آپؓ کی قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔ 42ھ میں معرکہ بحستان پیش آیا اور آپؓ ہی کے دور خلافت میں سندھ کا کچھ حصہ بھی مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔ 42ھ میں کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قدابیل کے مقام تک پہنچ گئے۔ 43ھ میں ملک سوڈان فتح ہوا اور بحستان کا مزید علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔ 46ھ میں صقلیہ (سسلی) پر پہلی بار حملہ کیا گیا اور کثیر تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ 47ھ میں افریقہ کے مزید علاقوں میں جہادجاری رکھا۔ 49ھ میں آپؓ نے قسطنطنیہ کی طرف زبردست اسلامی لشکر روانہ فرمایا، جو مسلمانوں کا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ تھا۔ 50ھ میں قبستان جنگ کے بعد قبضہ میں آیا۔ 54ھ میں آپ کے دور خلافت میں مسلمان دریائے جیجون کو عبور کرتے ہوئے بخارا تک جا پہنچے۔ 56ھ میں معرکہ سمرقند پیش آیا۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ نے رومیوں کے خلاف سولہ جنگیں لڑیں حتی کہ آخری وصیت بھی یہی تھی کہ روم کا گلا گھونٹ دو۔ خلاصہ یہ کہ سیدنا امیرمعاویہؓ ایک عظیم جرنیل، سپہ سالار اور میدان حرب کے نڈر شہسوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالے سے شاندار دور حکومت ہے۔ ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔
سیدنا امیرمعاویہؓ سے نبی اکرمؐ کی 163 احادیث مروی ہیں۔ 22 رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے امیر معاویہؓ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ سیدنا ضحاک بن قیسؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گئے۔