سینیٹ انتخابات:حکومت اور حزب اختلاف کا یکساں امتحان – سلمان عابد

578

3 مارچ کو سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات دو حوالوں سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اول، سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ، جس میں یہ طے ہونا ہے کہ یہ انتخابات اوپن ہوں گے یا خفیہ بیلٹ کی بنیاد پر ہوں گے۔ دوم، ایک تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ حکومت کے اپنے اندر خاصی تقسیم موجود ہے جس کا فائدہ اٹھاکر حزبِ اختلاف انتخابی نتائج میں حکومت کو دھچکہ یا سرپرائز دینا چاہتی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان مسلسل سینیٹ کے انتخابات میں ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی کہانیاں سنا رہے ہیں، اور مسلسل کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بھی دولت کی بنیاد پر ارکان کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے نتائج کیا آتے ہیں اور کیا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ سینیٹ انتخابات کے نتائج حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ حکومت سینیٹ میں دو تہائی برتری حاصل کرنا چاہتی ہے، جبکہ حزبِ اختلاف حکومت کی برتری کو کم کرنے کی حکمت عملی رکھتی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کون کس پر برتری حاصل کرتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں دولت، اقرباپروری، کرپشن اور بدعنوانی سمیت غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات نے سیاسی و جمہوری نظام کی ساکھ پر بنیادی سطح کے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اگرچہ ریاستی و حکومتی نظام سمیت اہلِ سیاست کی قیادت کا بنیادی کام نظام میں اصلاحات کی بنیاد پر شفافیت کا نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہر وہ فرد یا ادارہ جو براہِ راست نظام کی شفافیت کو قائم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، اسے ناکامی کا سامنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر انتخابات کے بعد ان کی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں اور انتخابی عمل متنازع بن جاتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد جو عدالتی کمیشن بنا اُس نے بھی اپنے تفصیلی فیصلے میں41نکات پر مبنی انتخابی بے ضابطگیوں پر تجاویز دیں اورکہا کہ ان پر توجہ دے کر حکومت اور ادارے انتخابی نظام کو شفاف بنائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح عمران خان کے دھرنے کے نتیجے میں ایک 35 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کا کام انتخابی اصلاحات پر اپنی سفارشات تیارکرنا اور اس پر مزید پالیسی اور قانون سازی کی مدد سے انتخابی نظام میں شفافیت پیدا کرنا تھا۔ لیکن 2018ء کے انتخابات پر بھی ہارنے والی جماعتیں ان انتخابات کو دھاندلی پر مبنی قرار دیتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں مارچ 2018ء کے سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ایک ویڈیو کا بڑا چرچا ہے جس میں مبینہ طور پر ووٹوں کی براہِ راست خریداری صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یہ معاملہ محض یہیں تک محدود نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں اسی طرح کے الزامات پر مبنی معاملات ہم دیکھ چکے تھے، لیکن اس ویڈیو نے جو کچھ سیاسی سطح پر اہلِ سیاست کا بھرم تھا اُسے بری طرح مجروح کیا ہے۔ اگرچہ عمران خان نے اپنے ان ارکان کو پارٹی سے بے دخل کردیا تھا، مگر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ حالانکہ اُس وقت ان لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے تھا اور ان کے خلاف قانونی طور پر ریفرنس بھیجا جانا چاہیے تھا۔ ان افراد کو الیکشن ایکٹ 2017کے تحت دفعہ 167,168,169اور 170کے تحت سزا دلوائی جاتی۔ لیکن اُس وقت بھی سمجھوتا کیا گیا، اور اب بھی اس ویڈیو کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا نہ ہونا بدنیتی پر مبنی ہے۔

اسی طرح موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف حزبِ اختلاف نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، اور ارکان کی مطلوبہ تعداد ہونے کے باوجود اس میں ناکامی پر یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ارکان کے خلاف کچھ نہیں کرسکیں، حالانکہ دونوں جماعتوں نے نہ صرف ان معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی بلکہ کہا گیا کہ ایسے ارکان جنہوں نے پارٹی فیصلے سے ہٹ کر فیصلہ کیا انہیں کسی بھی طور پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ کمیٹی بے نتیجہ رہی اور کچھ نہیں ہوسکا۔ بنیادی طور پر بحران ہماری سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوری نظام کا بھی ہے، جہاں شفافیت سے زیادہ اقربا پروری اور پسند وناپسند کے معیارات کا غلبہ ہے۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں اوپر سے نیچے تک عملی طور پر جوابدہی کا نظام قائم نہیں ہوگا، اُس وقت تک جمہوری نظام کی ساکھ قائم نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے خود سیاسی جماعتوں کا طرزِعمل بھی توجہ طلب ہے، جو اپنے اندر بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں چاہتا ہے۔

اگرچہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کی شفافیت کا ایک بڑا نکتہ اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ میں زیر بحث ہے۔ اب یہ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو کرنا ہے کہ وہ موجودہ سنگین صورتِ حال اور انتخابات کی شفافیت پر کیا فیصلہ کرتی ہے، اورکیسے وہ اپنے فیصلے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو پابند کرتی ہے کہ وہ شفافیت پر مبنی نظام نہ صرف قائم کرے بلکہ شفافیت کا یہ نظام ہر سطح پر واضح نظر بھی آنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں انتخابی نظام کی شفافیت قائم کرنے کے لیے وہ کچھ کیوں نہیں کرتیں جو ہماری سیاسی اور قانونی سطح کی ضرورت بنتی ہے؟ سیاست دان جب حزبِ اختلاف کا حصہ ہوتے ہیں تو انتخابی نظام کی شفافیت پر بہت سوالات اٹھاتے ہیں، لیکن جب یہی لوگ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں تو ماضی کی اپنی ہی باتوں کی تردید کرکے ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر ہماری سیاسی قیادتیں مل کر اوپن یا خفیہ بیلٹ کا فیصلہ بذریعہ پارلیمنٹ کرتیں۔ لیکن سیاست دان اپنے فیصلے خود کرنے کے بجائے قانون کا سہارا لے کر ان معاملات کو عدلیہ کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں جو درست حکمت عملی نہیں۔

سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں حکومتی ارکان کے درمیان تقسیم کی جو بحث جاری ہے وہ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ وزیراعظم کے دورۂ پشاور میں 20 ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی عدم موجودگی بھی تحریک انصاف کے داخلی معاملات میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کررہی ہے۔ اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست پر پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ وزیر خزانہ حفیظ شیح سے ہے۔ یوسف رضا گیلانی اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ حکومتی ارکان کے ساتھ کچھ معاملات طے کرکے اُن کا ووٹ حاصل کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ حکومت کے لیے بھی بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا، اور اس سے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف نئی صف بندی کرنے میں بھی مدد ملے گی، کیونکہ آصف زرداری نے کچھ دیکھ کر ہی یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کیا ہے، اور یہ یقین دہانی بھی آصف زرداری نے پی ڈی ایم کی قیادت کو کروائی ہے کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہماری اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہے گی۔ اور اس کا اشارہ یوسف رضا گیلانی نے بھی کیا ہے کہ اس بار ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مدد کرنے کے بجائے غیر جانب دار ہے جو اچھا شگون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر صورت میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کی بنیاد پر چاہتی ہے تاکہ اسے کم سے کم سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔

ایک سنجیدہ مسئلہ انتخابی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے۔ ان الزامات یا اقدامات کے تناظر میں ہمارا انتخابی نظام بڑی اصلاحات چاہتا ہے۔ لیکن اس کا مقصد بھی جہاں اداروں کو اپنے اپنے قانونی دائرۂ کار تک محدود رکھنا ہے وہیں ایسی سیاسی، انتظامی اور قانونی اصلاحات، اور ان پر عمل درآمد کے نظام کو یقینی بنانا ہے جو ہر سطح کی انتخابی نظام میں مداخلت کو روک سکے۔لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس تضاد سے باہر نکلے کہ اگر معاملات ان کے حق میں ہوں تو سب اچھا ہے، اوراگر معاملات ان کے خلاف ہیں تو پھر الزامات کا سہارا لیا جائے۔ سیاسی قیادت کا بیانیہ ایک ہونا چاہیے چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزبِ اختلاف میں۔لیکن اپنی اپنی ذاتی خواہشات کی بنیاد پر اپنے اپنے مفاداتی بیانیے پر قائم رہیں گے تو مجموعی طور پر ریاستی بیانیہ جو شفافیت سے جڑا ہوتا ہے، متاثر ہوگا۔

اب اگر سینیٹ کے انتخابات خفیہ بیلٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اور ووٹوں کی خریداری کا منظر سننے یا دیکھنے کو ملتا ہے تو یقینی طور پر یہ سیاست، جمہوریت اور قانون سمیت ریاستی مفاد کے خلاف ہوگا۔ اس کے بعد ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی ہونے ہیں، ایسے میں انتخابات کا مجموعی نظام درست ہونا چاہیے، اور سیاسی، قانونی اور انتظامی سطح پر جو بھی اصلاحات درکار ہیں وہ ہماری سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ ہونی چاہئیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے داخلی سیاسی نظام کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے کہ وہاں جو بگاڑ ہے اس کا سدباب بھی اہمیت رکھتا ہے۔

کیونکہ مسئلہ محض سینیٹ کے انتخابات کا نہیں، بلکہ قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مجموعی نظام بھی عدم شفافیت کی بنیاد پر کھڑا ہے، اور اس میں ہر سطح پر غیر معمولی اقدامات، اور ہر ادارے میں بڑے پیمانے پر سرجری درکار ہے۔ کیونکہ انتخابات کی عدم شفافیت کا مرض چھوٹا نہیں، اور نہ ہی اس مرض کی اصلاح کسی ڈسپرین کی گولی سے ممکن ہوگی۔ بہتر ہوتا کہ اس سیاسی ماحول میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بداعتمادی موجود نہ ہوتی، اور یہ مل کر جو اصلاحات نظامِ انتخاب میں کرنا چاہتے ہیں وہ کرلیتے تو ریاستی و حکومتی مفاد کو بھی برتری ہوتی۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی اورانتخابی نظام یونہی سیاسی تماشا بنا رہے گا، جس کی ذمہ داری سب ہی فریقین پر عائد ہوتی ہے۔

(This article was first published in Friday Special)