پورا اسلام ہی مغرب کی زد پر ہے

674

جماعت اسلامی ان دنوں خاندان کے ادارے کے تحفظ کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں مذاکرات ہورہے ہیں، سیمینارز کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ جماعت اسلامی جیسی تنظیم کے ذمے داروں کو مغرب کے حوالے سے خاندان کو درپیش چیلنج کی فکر ہے اور وہ اسی سلسلے میں شعور کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مغرب سے صرف ہمارے خاندان کے ادارے ہی کو خطرات لاحق نہیں پورا اسلام، پورا معاشرہ ہی مغرب کی زد پر ہے۔ مغرب کے دو حصے ہیں ایک عیسائی مغرب ہے اور دوسرا سیکولر مغرب ہے۔ بدقسمتی سے عیسائی مغرب بھی اسلام کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور سیکولر مغرب بھی اسلام اور مسلمانوں کو اپنا دشمن خیال کرتا ہے۔ مسلمانوں میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ عیسائی مغرب اسلام کو دین حق اور رسول اکرمؐ کو پیغمبر تسلیم نہیں کرتا۔ جہاں تک سیکولر مغرب کا تعلق ہے تو سیکولر مغرب کے لیے پورا اسلام، پوری اسلامی تہذیب اور پوری اسلامی تاریخ ہی قابل گردنی زدنی ہے۔ اس کی وجہ اسلامی اور مغربی فکر کے بنیادی تصورات کا تصادم ہے۔ اسلام ایک خدا پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولر مغرب کے نزدیک خدا پر ایمان ایک لایعنی عقیدہ ہے۔ اس لیے کہ خدا ایک ان دیکھی چیز ہے۔ خدا کے وجود کو سائنسی مشاہدے یا سائنسی تجربے کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ وحی سے برتر علم کوئی نہیں ہے۔ لیکن جدید مغرب کے نزدیک علم وحی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جدید مغرب صرف سائنسی علم کا قائل ہے۔ اسلام کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے۔ اس کا شرف خدا کا بندہ ہوتا ہے۔ سیکولر مغرب کا خیال ہے کہ انسان ایک حیوان ہے اور وہ بندر کی ترقی یافتہ شکل کے سوا کچھ نہیں۔ وہ خود اپنی تقدیر کا مالک ہے اس کو عقل اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہے اسے زندگی گزارنے کے لیے کسی خدا اور کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور مغرب کا تصور تخلیق بھی ایک دوسرے کی ضد ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے کن کہا اور یہ پوری کائنات وجود میں آگئی۔ سیکولر مغرب کا عقیدہ ہے کہ یہ کائنات کسی خدا کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ کائنات بگ بینگ کا حاصل ہے۔ مسلمانوں کا تصور تاریخ یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی ہدایت ربانی سے، ہدایت ربانی تک کا سفر ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ لیکن اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے تجربے کی جانب لوٹے گی مگر سیکولر مغرب کے ایک ممتاز دانش ور جیمس فریزر نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسانیت کے بچپن کا زمانہ جادو کا زمانہ تھا۔ انسان نے ترقی کی تو معاذاللہ اس نے مذہب ایجاد کرلیا۔ انسانی ذہن کا مزید ارتقا ہوا تو اس نے فلسفے کا عہد پیدا کیا۔ انسانی ذہن نے مزید فروغ پایا تو اس نے سائنسی شعور اور سائنسی علم پیدا کرلیا اور آج انسان سائنسی عہد میں سانس لے رہا ہے۔ اس عہد سے برتر عہد کوئی نہ تھا۔ اس تناظر میں سیکولر مغرب جب مسلمانوں کو اپنی پوری مذہبی روایت سے چمٹے دیکھتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ مسلمان تو بہت پسماندہ ہیں اور انہیں زندگی کے ہر دائرے میں مغربی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ وہ پوری قوت سے اسلام اور اس کے ہر تصور اور ہر ادارے پر حملہ آور ہے۔ برصغیر میں تین بڑی مسلم شخصیتوں کو مغربی فکر کی ہولناکی کا پورا اندازہ تھا۔ برصغیر میں مغربی فکر اور اس کی تہذیبی یلغار کی پہلی مزاحمت اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں کی۔ اکبر کی شاعری کی عظمت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان جو جنگ میدان جنگ میں ہار گئے تھے اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھادی۔ اکبر کے بعد اقبال نے اپنے وجود کی پوری قوت سے اپنی شاعری میں مغرب کی مزاحمت کی۔ انہوں نے مغرب کے تصورِ الہ، تصورِ علم اور تصورِ انسان کو مسترد کردیا۔ اقبال کو مغرب کی طاقت ہی کا نہیں اس کی کمزوریوں کا بھی پورا شعور تھا۔ چناں چہ اسی لیے انہوں نے کہا:
دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
اقبال ہمارے دینی عقاید کے سلسلے میں مغربی فکر کی ہولناکی سے خاص طور پر پریشان تھے۔ اس لیے انہوں نے فرمایا:
محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
اس عہد میں شیشہ عقاید کا پاش پاش
اقبال کے بعد مولانا مودودی ایک تاریخ ساز شخصیت کے طور پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کے فکری اُفق پر اُبھرے۔ انہوں نے مغرب کو مکمل طور پر رد کیا اور اس کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ مولانا نے مغرب کو جاہلیت خالصہ قرار دیا۔ انہوں نے مغرب کو تخم ِخبیث اور شجر ِ خبیث کہہ کر پکارا۔ مولانا کی پوری فکر مغرب کی مزاحمت سے عبارت ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مولانا نے کراچی میں اپنی جیب خاص سے ادارئہ معارف اسلامی اس لیے قائم کیا تھا کہ اس میں مغربی فکر کو رد کرنے والا اور اس کے جادوئی اثر کا توڑ کرنے والا لٹریچر پیدا کیا جائے۔ مولانا کی تمنا تھی کہ یہ ادارہ ایسا نصاب تیار کرے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں مغرب کے علوم و فنون کے نصاب کی جگہ لے سکے۔ لیکن اب پورے پاکستانی معاشرے کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب کو اس کے اصل عقاید کی بنیاد پر جانتا ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ اکبر اور اقبال کی شاعری اور مولانا کی بے مثال نثر پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ معاشرہ ان لوگوں کو پڑھ رہا ہوتا تو وہ صرف یہ کہ مغرب سے پوری طرح آگاہ ہوتا بلکہ وہ کسی نہ کسی درجے میں مغرب کی مزاحمت کرنے والا معاشرہ بھی ہوتا۔ بلاشبہ مغرب سے ہمارے خاندانی ادارے کو سنگین خطرات لاحق ہیں مگر مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ مغربی علوم پڑھنے والی ہماری نئی نسل میں الحاد بھی بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد یا تو خدا پر ایمان ہی نہیں رکھتی۔ اور رکھتی بھی ہے تو وہ خدا پر ایمان کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہماری سیاست اور ہماری معیشت کا ماڈل مغرب سے آیا ہے بلکہ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آرزوئیں اور ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرے میں پورے مغرب اور اس کی پوری تہذیب کے خلاف ایک بڑی فکری اور عملی تحریک برپا کریں۔ ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اگر انہوں نے مغرب کو نہ سمجھا تو اس کی کامیاب مزاحمت بھی نہیں کرسکیں گے۔ مغرب کے خلاف تحریک کے سلسلے میں اکبر اور اقبال کی شاعری اور مولانا مودودی کا بے مثال علم کلام ہماری بہت مدد کرسکتا ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا ہے جو باطل کو نہیں سمجھتا وہ حق کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ مغرب باطل ہے اور اسے سمجھنا ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔