در گزر کرنے کا فن

316

انسان کے اصلی اور ازلی دشمن شیطان (جن و انس) کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے بیچ نفاق کا بیج ڈال دیں۔ اسی لیے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو بات بھی زبان سے نکلے وہ بہترین ہو اور ایسی نہ ہو جو شیطان کے ڈالے ہوئے بیج کی آبیاری کرے۔
’’اور اے محمدؐ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (الاسراء: 53)
ایک مومن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ شیطان کی کوئی چال اور جاہلوں کی کوئی اوچھی حرکت انھیں جادۂ حق سے ہٹا نہ پائے۔
’’رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘۔ (الفرقان: 63)
اللہ کے رسولؐ کو آغاز دعوت ہی میں یہ نصیحت فرمائی گئی کہ آپؐ جاہلوں کی اوچھی حرکتوں اور پروپیگنڈے سے ذرا متاثر ہوئے بغیر اپنے کام میں لگے رہیں اور ان کو خوبی کے ساتھ نظر انداز کریں۔
’’اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور ان کو خوبصورتی سے نظر انداز کرو‘‘۔ (المزمل: 10)
نظر انداز کرنے کا یہ نسخہ ایک زبردست حکمتِ عملی ہے جو اہلِ حق کو اپنے کام پر پوری طرح مرتکز کر دیتی ہے۔
ان کی ساری توجہ، وقت اور توانائیاں تعمیری کاموں اور منصوبوں پر صرف ہوتی ہیں۔
قولی گناہوں کی ہولناکی
علقمہ بن وقاص کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنیؓ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہوگا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضگی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا۔ علقمہؓ کہتے ہیں: دیکھو افسوس ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جنھیں بلال بن حارثؓ کی اس حدیث نے مجھے کہنے سے روک دیا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
سیدنا علقمہؓ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہوجاتا ہے۔ کہا گیا ہے: ’’زبان کا جثہ تو چھوٹا ہے مگر اس کے گناہ بڑے اور بہت ہیں‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ تعلقات کو جتنا نقصان تلخ کلامی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا۔
قرآن مجید میں انسان کو اپنے ہر قول کا جواب دہ ٹھہرایا گیا ہے: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔ (ق: 18)
ایک مومن کو اپنے قول کے تئیں انتہائی ہوش مند اور سنجیدہ ہونا چاہیے، بلکہ ان کو سرگوشی پر بھی متنبہ کیا گیا ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو‘‘۔ (المجادلۃ: 9)
واقعہ یہ ہے کہ تنازعات خود اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنا بڑا انھیں غیر ذمے دارانہ گفتگو اور فحش گوئی بنادیتی ہے۔
اللہ تعالی معاملات میں نرم خوئی اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا فرماتے ہیں جو دوسری کسی چیز پر عطا نہیں فرماتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نرمی (اور خوش خلقی) کو پسند فرماتا ہے اور خود بھی نرم ہے اور دیتا ہے نرمی پر جو نہیں دیتا سختی پر اور نہ کسی چیز پر۔ (مسلم)