مضبوط خاندان کے خد و خال

261

خاندان کو مضبوط بنانے کے لیے عقل کے تقاضے بھی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں، تاہم دینی رہنمائی ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے طاقتور محرک ہوتی ہے۔ یہ دینی محرک انسان کو مشکل سے مشکل حالات میں مضبوط موقف اختیار کرنے پر آمادہ رکھتا ہے۔ عقل کے سامنے دنیا کی سعادت ہوتی ہے، جبکہ دین دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ صرف عقل کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت خواہشات اور حادثات کا صدمہ برداشت نہیں کرپاتی ہے۔ دین کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت بہت ٹھوس اور مستحکم ہوتی ہے، ہر جھٹکے کو برداشت کرلیتی ہے۔ غرض مضبوط خاندان کی تشکیل عقل کا تقاضا بھی ہے اور دین کا تقاضا بھی ہے۔ عقل بھی رہنمائی کرتی ہے اور دین بھی رہنمائی کرتا ہے۔ مومن کی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہ دونوں سے فیض اٹھاتا ہے۔
مضبوط خاندان میں اعلی اصولوں کی پاسداری ہوتی ہے
اجتماعی معاملات میں عدل اسلام کا سب سے اہم اصول ہے، اس اصول کو برتنے میں سب لوگ شامل ہوجائیں تو خاندان مضبوط ہوجاتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد کے درمیان عدل کیا جائے، مردوں اور عورتوں میں یا بیٹیوں اور بہوؤں یا دیگر افراد کے درمیان ایسا فرق جو ظلم کی حد تک پہنچ جائے اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور خاندان کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ عدل ہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ خاندان کے مشترک فیصلے مشاورت اور باہمی رضامندی سے ہوں۔ اجتماعی زندگی میں من مانی کرنے کا رویہ ایک طرح کا ظلم ہوتا ہے اور بہت دنوں تک رشتوں کو برقرار نہیں رہنے دیتا ہے۔ غرض خاندان کا اعلی اقدار اور اصولوں سے رشتہ جتنا مضبوط رہے گا خاندان کی کڑیاں اسی قدر مستحکم رہیں گی۔
مضبوط خاندان میں لطیف جذبات کی رعایت کی جاتی ہے
جذبات کو نازیبا الفاظ بی ٹھیس پہنچاتے ہیں اور ناروا خاموشی بھی۔ بڑی باتوں کا جتنا اثر جذبات پر پڑتا ہے کچھ اتنا ہی اثر چھوٹی باتوں کا بھی پڑتا ہے۔
جذبات ہر انسان کے ساتھ ہوتے ہیں اور انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اسے صرف اپنے جذبات عزیز ہوتے ہیں۔ رشتوں کی کمزوری کا بڑا سبب جذبات کی یہ انانیت ہے۔ جب لوگ اپنے جذبات کے ساتھ دوسروں کے جذبات کا بھی خیال رکھتے ہیں تو رشتے بے انتہا مضبوط ہوجاتے ہیں۔
مضبوط خاندان میں سب کی کوشش رشتوں کو بچانے کی ہوتی ہے
دو افراد میں تلخی ہوجائے اور باقی لوگ اس تلخی کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو تلخیوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ رشتوں میں خرابی اس وقت بڑھتی ہے جب دوسرے لوگ اسے بڑھانے میں حصہ لیتے ہیں۔
تلخیوں کو بڑھانے اور رشتوں کے خرمن میں چنگاریوں سے شعلے بھڑکانے کا شوق بہت خراب ہوتا ہے۔
مضبوط خاندان میں حسن اخلاق اور سمجھداری کی حکومت ہوتی ہے
خاندان ایک ایسی اجتماعیت ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ تعلق و تعامل اور دوسرے کے رویے پر بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ حسن اخلاق اور سمجھداری ہر اجتماعیت کے لیے ضروری ہوتی ہے، لیکن خاندان کی اجتماعیت تو ان دونوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ہے۔
خاندان کے تقریبا تمام ہی مسائل کی پشت پر یا تو کسی کی ناسمجھی کارفرما ہوتی ہے یا کسی کی اخلاقی پستی ہوتی ہے۔ ناسمجھی کا علاج سمجھداری سے ہوتا ہے اور اخلاقی پستی کا مداوا اخلاقی بلندی سے ہوتا ہے۔ خاندان کو مضبوط بنانے کے لیے سمجھداری اور اخلاق کی عام سطح کو بلند کرنے کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔
مضبوط خاندان میں رخنوں کو بھرنے کا انتظام ہوتا ہے
رخنے تو ہر خاندان میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن مضبوط خاندان میں انھیں بڑھنے نہیں دیا جاتا ہے بلکہ انھیں بھرنے کے لیے بھی لوگ آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ کوئی فرد بیماری کی وجہ سے اپنی ذمے داری ادا نہیں کرپاتا صحت مند لوگ اس کی اس کمی کو پورا کردیتے ہیں، نادار کی طرف سے ہونے والی کوتاہی کی تلافی مال دار کردیتے ہیں، ناسمجھ کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کا مداوا سمجھ دار کردیتے ہیں۔ بد اخلاق کی طرف سے ہونے والی بدتمیزی کو اعلی اخلاق والے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس کے لیے احسان کی صفت مطلوب ہوتی ہے۔ اسلام اس صفت کی بہت زیادہ ہمت افزائی کرتا ہے۔
مضبوط خاندان میں ایجابی اپروچ ہوتی ہے
منفی سوچ خاندان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ مثبت سوچ اور ایجابی اپروچ سے خاندان کی فضا خوش گوار اور اس کی دیواریں پائیدار رہتی ہیں۔ شوہر اور بیوی سے لے کر بڑے خاندان تک بے شمار مسائل ایجابی سوچ کے نتیجے میں یا تو پیدا ہی نہیں ہوتے ہیں یا شروع ہی میں ختم ہوجاتے ہیں۔ علیحدہ خاندان اور مشترک خاندان کی بحث ہو، پرانے رواجوں اور نئے فیشنوں کے بیچ ٹکراؤ ہو، کاموں کی تقسیم اور مراتب کے فرق کا مسئلہ ہو، مزاجوں اور طبیعتوں میں میل نہ ہوپانے کی دشواری ہو، غرض ایسی بہت سی الجھنیں مثبت سوچ اور ایجابی اپروچ کے ذریعے خوبی سے حل کی جاسکتی ہیں۔
خاندان کا سررشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ
یوں تو خاندان بہت سے رشتوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے، لیکن خاندان کا مرکزی رشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہوتا ہے، اسی رشتے سے پھر باقی تمام رشتے وجود میں آتے ہیں۔ یہ رشتہ انسان خود قائم کرتا ہے اور اسے ختم کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ رشتہ قائم ہوتا ہے تو دو بڑے خاندانوں کے بیچ قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو بہت سے رشتے موتی کے دانوں کی طرح دور دور بکھرجاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا اور انسانی خاندانوں کا سفر اسی رشتے کی بدولت جاری وساری ہے۔ اگر خاندان کے تمام لوگ اپنی توجہ اس رشتے کو محفوظ اور مضبوط بنانے پر مرکوز رکھیں تو پورے خاندان میں مضبوطی آتی ہے۔
دورِ جدید میں یوں تو پورے خاندان کا ادارہ شدید خطروں سے دوچار ہے، لیکن سب سے زیادہ خطرہ شوہر اور بیوی کے رشتے کو درپیش ہے۔ پہلے ساس اور بہو کے جھگڑے اور مشترکہ خاندان کے مسائل کا چرچا زیادہ ہوتا تھا، لیکن اب تو سب سے بڑا مسئلہ خود شوہر اور بیوی کے باہمی تعلقات کا بنا ہوا ہے۔ پہلے جہیز وغیرہ کی تباہ کاریاں زیادہ سننے کو ملتی تھیں مگر اب شوہر اور بیوی کے بیچ تناؤ خاندانوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
بڑھو اسلام کی طرف
دکھوں کے مارے انسان کو خاندان کے آغوش کی جتنی ضرورت پہلے تھی اس سے کہیں زیادہ آج ہے۔
خاندان میں در آئی خرابیوں کی اصلاح ہوتی رہے، چاہے وہ کتنی ہی پرانی ہوں۔ اس کے اندر سے ظلم اور گھٹن کے اسباب کو دور کیا جائے، چاہے ان اسباب کو کتنا ہی تقدس ملا ہوا ہو۔ خاندان کے اندر اعلی قدروں کو فروغ دیا جائے۔ یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے۔ تاہم کسی بھی حوالے سے خاندان سے بیزاری درست نہیں ہے۔ یہ جائے پناہ سے وہ راہ فرار ہے جس کے آگے کوئی جائے پناہ نہیں۔
آج انسانیت کو بہت بڑا خطرہ نئی نسل میں بڑھتی ہوئی خاندان سے بیگانگی اور شادی کے رشتے سے بیزاری سے درپیش ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے دین اسلام کی تعلیمات اور اللہ کی دی ہوئی عقل کی تجلیات کو ساتھ لے کر انسانیت کو اس خطرے سے بچایا جاسکتا ہے۔