نقطۂ نظر

158

فورکے چورنگی تعمیر کی جائے

جماعت اسلامی فور کے اسٹاپ کے لیے جو جدوجہد کررہی ہے تو اس مہم کی کامیاب میں اپنا حصہ ڈالنا میں ضروری سمجھتی ہوں کہ اس احتجاج میں شامل ہو کر اپنی رائے کا اظہار کروں، کیوں کہ فور کے ایسی چورنگی ہے جہاں سے تقریباً ہر طرح کے افراد کا گزر ہوتا ہے اس جگہ دھول مٹی، ٹوٹے پھوٹے روڈ اور ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے اکثر حادثات بھی سامنے آتے ہیں۔ بچوں کے اسکول آنے جانے اور پیدل چلنے والوں کا گاڑیوں کے رش کی وجہ سے وہاں سے گزرنا بہت مشکل مرحلہ ہے، حکومت سے اس کی تعمیر توسیع کی جائے کیوں کہ ان گنت حادثات کی وجہ سے بے شمار اموات واقع ہوتی ہیں۔ بہت سارے گھروں کے چراغ بجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی اس کی تعمیر کے لیے جو جدوجہد کررہی ہے ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بشریٰ سلیم، امبر عمرانی، شبانہ معراج، عمیمہ
سرجانی سیکٹر 11-A

زبانی جمع خرچ نہیں اہل کشمیر کے لیے عملی قدم اٹھائیں

ایک سوال دل و دماغ سے مٹتا نہیں کہ کشمیری عوام جو اتنی قربانیاں دے رہے ہیں آخر کیوں؟ یہ ایک طرف تو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ہندوستان سے کیوں کہ پاکستان آنے والے تمام دریا کشمیر سے نکل کر پاکستان کے کھیت کھلیان سیراب کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو سب ویران ہوجائے۔ قائد اعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور جب پاک و ہند کی تقسیم ہوئی تب مسلمانوں کی اکثریت کی بنا پر کشمیر کو پاکستان کا ہی حصہ بننا تھا جس پر نو قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔ آج ہمارے کشمیر کا یہ حال ہے کہ ہر گھر میں ماتم ہے، ہر ماں اپنے جوان اولاد کے لاشیں وطن کی راہ میں شہید کروا رہی ہے، وہاں کے ہندوستانی فوجوں نے ظلم اور درندگی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کشمیری آخر کب تک یہ سب سہتے رہیں گے؟ اس لیے کہ کشمیری پاکستان میں شامل ہو کر ہندوستان سے آزادی چاہتے ہیں اور ہم پاکستانی اپنے ملک میں ہر طرف ہندوستانی ثقافت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ہندوستانی پہناوے، ہندوستانی فلمیں، گانے، کلچر یہ سب ہمارے گھروں میں زندگیوں میں شامل ہے۔ اگر ہم واقعی کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور کشمیریوں سے محبت اور درد رکھتے ہیں تو یہ چھوڑ کر کشمیریوں کی محبتوں کا حق ادا کرنا ہوگا، سچے دل سے کشمیریوں کا ساتھ دینا ہوگا۔
انیسہ حکیم

اردو سے بغض کا اظہار اردو میں!!۔

کچھ عرصہ قبل محمود خان اچکزئی نے پی ڈی ایم کے جلسے میں اردو کے خلاف بیان دیا ہے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے تو پس آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب بابائے قوم قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی تو میں اور آپ اختلاف کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اپنی انتھک کوششوں سے بنایا تھا اور جو بات انہوں نے طے کرلی اس سے ان کے ساتھیوں نے بھی اتفاق کیا، جب کہ قائد اعظم کی اپنی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ اور پاکستان کے تمام صوبوں کی اپنی اپنی جدا زبانیں ہیں۔ مگر پاکستان کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں تو آپ باآسانی اردو میں سب سے بات کرسکتے ہیں کیوں کہ ہر پاکستانی اپنی مادری زبان کے علاوہ خواہ کوئی اور زبان سمجھتا بولتا ہو یا نہیں مگر اردو کو تمام پاکستانی سمجھتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں، اس کی زندہ اور تازہ مثال آپ خود ہیں اگر آپ کو اردو سے اتنی نفرت ہے تو اپنی زبان ہی میں تقریر کریں، خواہ کسی کو سمجھ آتی ہے یا نہیں آتی، رابطہ کے لیے اردو کو ذریعہ بنائیں اور اسی سے دشمنی رکھیں، یہ قول و فعل کا تضاد ہے یہ اپنی پیاری اور میٹھی زبان سے بغض رکھنا کسی پاکستان کو زیب نہیں دیتا۔ اگر آپ پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو اردو سے محبت بھی آپ کے دل میں ہونی چاہیے۔
ام احسن