شام کی تباہی کے ذمے دار بشارالاسد، روس، ایران اور عالمی برادری ہیں

643

کراچی (رپورٹ: منیب حسین) شام میں مطلق العنان صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی تحریک کو آیندہ ماہ 10 برس مکمل ہونے والے ہیں۔ اس ایک دہائی میں شام نے جس تباہی وبربادی، قتل وغارت، ہجرت ونقل مکانی اور بین الاقوامی بے حسی کو برداشت کیا، دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس کی مثال نہیں ملتی۔ فروری 2011ء میں جنوبی شہر درعا میں اسکول کے چند بچوں کی گرفتاری پر شروع ہونے والے پُرامن عوامی احتجاج کو اسدی فوج اور نیم سرکاری ملیشیاؤں نے بہ زورِ طاقت کچلنے کی کوشش کی، تو 15 مارچ 2011ء کو ملک گیر احتجاج شروع ہوا، اور 4 ماہ تک اسد انتظامیہ کے مسلسل تشدد اور ہزاروں شہریوں کو شہید کرنے پر فوج کے کچھ باغی عناصر اور عوام ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ یوں ایک ایسی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میںعورتوں اور بچوں سمیت تقریباً 5 لاکھ افراد مارے گئے، لاکھوں زخمی یا معذور ہوئے اور سوا کروڑ سے زائد اندرون وبیرونِ ملک ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں بچا، جس میں بم باری سے پھیلنے والی تباہی کے آثار نہ ہوں۔ تقریباً تمام ہی بڑے شہر کھنڈر بن چکے ہیں اور ملکی معیشت کو 400 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ امریکا، نیٹو، روس، ایران اور ترکی سمیت مختلف ممالک کی افواج شام میں موجود ہیں، جن کے باعث یہ تنازع شدید تر ہوا اور اب تک حل نہیں ہوسکا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس ساری تباہی کا ذمے دار کون ہے اور کیا یہ مسلح تنازع اپنے منطقی انجام کو پہنچ پائے گا؟ ہم نے یہ سوال شام ہی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور اس تحریک کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے ڈاکٹر عبدالمنعم زین الدین سے پوچھے۔ انہوں نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں ناصرف ان سوالات کے جوابات دیے، بلکہ شامی تنازع کے دیگر پہلوؤں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلابی تحریک کو ناکام کہنا تو درست نہیں، بلکہ حقیقت میں یہ کئی جہات سے کامیاب رہی۔ اس نے شامی عوام کو خوف کا وہ دائرہ توڑنے کا حوصلہ دیا، جس میں وہ دہائیوں سے سسک رہے تھے۔ اس نے ظالم حکومت کا وہ دبدبہ خاک میں ملایا، جو اس نے آتشیں اسلحہ، جیلوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بلبوتے پر مسلط کر رکھا تھا۔ اس نے اسدی فوج اور اس کی ملیشیا ’’شبیحہ‘‘ کو رسوا کیا، اور اکثر علاقوں میں انہیں شکست سے دوچار کیا، یہاں تک کہ بشارالاسد حکومت حزب اللہ، ایران اور روس سے مدد لینے پر مجبور ہوئی کہ وہ اسے بچانے کے لیے اپنا تمام لاؤ لشکر لے کر آئیں۔ نیز اس نے حزب اللہ کا اصل چہرہ بھی آشکار کردیا۔ آج یہ عوامی تحریک جس کمزوری کا شکار ہے، اس کی وجہ بھی روس اور ایران ہی ہیں۔ یہ دونوں ممالک نہ ہوتے تو کب کا بشارا لاسد کا دھڑن تختہ ہوچکا ہوتا۔ شامی مزاحمت کاروں کو ملنے والی محدود امداد کے راستے بند ہونے، معاون ممالک کے اپنا ہاتھ کھینچ لینے اور عالمی برادری کی سیاسی دھوکے بازی نے اس تنازع کو طول دیا۔ اس کے نتیجے میں اسد حکومت کو اپنے جرائم جاری رکھنے کا موقع ملا۔ اس لیے شام میں ہونے والی تمام تر تباہی کے ذمے دار بشار الاسد، اس کے حلیف اور وہ قوتیں ہیں، جنہوں نے اب تک اس مجرم کو برسراقتدار رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ یہ انقلابی تحریک ضرور کامیاب ہو کر رہے گی، کیوں کہ یہ ایک برحق، منصفانہ اور عوامی تحریک ہے۔ شام ہی کی ایک اور شخصیت ومعروف تجزیہ کار ڈعباس شریفہ بھی اپنے ملک کی صورت حال اور عوامی تحریک سے متعلق فکرمند ہیں۔ ہم نے ان سے بھی یہی سوالات کیے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ شامی تحریک درحقیقت پُرامن ذرائع سے فاسد اور جابر حکومتوں کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والی عرب بہار ہی کا حصہ تھی، تاہم اسد حکومت نے اس کے خلاف طاقت و اسلحہ کا استعمال کیا اور شامی قوم کے درمیان فرقہ ورانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی، تاکہ وہ اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا حل تلاش کرسکے۔ اسد حکومت اپنا تمام تر جنگی سازوسامان استعمال کرنے کے باوجود اس عوامی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہی، تو اس نے بیرونی مداخلت جیسے ایران اور اس کی 50 سے زائد ملیشیا کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح عالمی نظام اور اسد حکومت نے داعش اور القاعدہ کو دخل اندازی کا راستہ فراہم کیا، تاکہ ان تنظیموں کی آڑ میں تحریک کا بازو مروڑا جاسکے۔ پھر 2015ء میں روس کو مداخلت کے لیے بلایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی روایتی اسلحہ پر پابندی کی حامل عوامی تحریک کے خلاف نسل کشی پر مشتمل جنگ شروع ہوگئی اور خطے کی دیگر عرب حکومتوں کے خلاف بغاوتیں شروع ہونے سے خوف زدہ عالمی برادری کا رویہ بھی بدل گیا۔ انہوں نے ایران کو سب سے بڑا چیلنج قرار دینا شروع کردیا۔ اسی طرح بشارالاسد کی بقا میں امریکا اور اسرائیل کا کردار فیصلہ کن رہا۔ اس سب کے باوجود یہ تحریک کامیاب رہی ہے اور اس نے پہلے روز ہی بشارالاسد کا اقتدار ختم کردیا تھا، کیوں کہ شام میں اسد حکومت کا وجود حقیقتاً باقی نہیں رہا ہے، اور مزاحمت کار روس اور ایران سے برسرپیکار ہیں۔ اس معرکے کا انجام شامی قوم کی استقامت اور شامی سرزمین پر علاقائی معرکہ آرائی پر منحصر ہے۔ حسن دغیم ابوبکر شامی عالم اور قلم کار ہیں۔ اکثر عرب ذرائع ابلاغ پر بطور تجزیہ کار نمودار ہوتے ہیں۔ شامی بحران پر جسارت سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو میں پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ظالم حکومت کے خلاف مظلوم شامی عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی، اور کئی پاکستانی بھائیوں نے فلاحی تنظیمیں قائم کرکے یہاں امداد پہنچائی۔ شام میں جابر نظام کے خلاف انقلابی تحریک ابتدا ہی سے کامیاب تھی۔ مزاحمت کاروں نے دارالحکومت دمشق کے کچھ حصوں اور تمام نواحی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا، یہاں تک کہ حسن نصر اللہ کی زیرقیادت لبنانی ملیشیا حزب اللہ شامی عوام کے خلاف میدان میں اتر آئی۔ پھر ایرانی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نے ایران، عراق، افغانستان، بھارت اور پاکستانی سمیت دنیا بھر سے جنگجوؤں کو بھرتی کرکے شام پہنچایا، جنہوں نے شامی عوام کا قتل عام کیا۔ 2013ء میں شامی سرزمین پر داعش کا ظہور ہوا، جو انتہاپسندانہ اور تکفیری نظریات کی ہے۔ اس تنظیم نے مسلمان عوام اور مزاحمت کاروں کا ناصرف قتل عام کیا، بلکہ شامی تحریک انقلاب کا چہرہ بین الاقوامی سطح پر خراب کرنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کاروں کو مجبوراً داعش سے جنگ کرنا پڑی۔ تاہم اس سب کے باوجود اسد حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رہی، یہاں تک کہ روس نے اچانک شام میں عسکری مداخلت کردی، اور اپنے جنگی طیاروں اور 50ہزار عسکری ماہرین، افسران، سپاہیوں اور کرائے کے جنگجوؤں کے ساتھ میدان میں کود پڑا۔ روسی فضائیہ نے مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں، جنگی محاذوں، اسپتالوں، اسکولوں، تندوروں اور آبادیوں سمیت ہر جگہ وحشیانہ بم باری کی، جس کے نتیجے میں مزاحمت کاروں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ تاہم مزاحمت کار اب بھی شام کے شمال یعنی صوبہ ادلب اور حلب میں موجود ہیں، اور ترکی کی جانب سے شامی حزبِ اختلاف کی سیاسی، عسکری اور مادی مدد نے انہیں استقامت دے رکھی ہے۔ تُرک بھائی 40لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کررہے ہیں۔مزاحمت کار اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور تُرک فوج کے شانہ بہ شانہ موجود ہے۔