برطانیہ میں اسلاموفوبیا کی نئی لہر

809

برطانیہ میں پہلی بار ایک ۹۲ سالہ مسلم خاتون ، زارا محمد، پانچ سو مسلم تنظیموں، مسلم کونسل آف برٹن کی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئی ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی ایک مسلم خاتون کے اس عہدہ پر فائز ہونے پر زارا محمد کو مبارک باد پیش کرنے کے بجائے برطانیہ میں اسلامو فوبیا کی ایک نئی لہر اٹھی ہے، اس میں پیش پیش بی بی سی ہے جس نے زارا محمد کو برطانیہ کی مسلم خاتون کو ایک اہم سنگ میل حاصل کرنے پر خوشی کا اظہارکرنے کے بجائے عجیب و غریب انٹرویو کیا ہے۔ بی بی سی کی بارنٹ کے انٹرویو کا سارا زور گھسے پٹے سوالات پر تھا کہ مسلم خواتین کو کس حد تک حقوق حاصل ہیں۔ اسی کے ساتھ بارنٹ نے بار بار سوال کیا کہ برطانیہ میں کتنی خواتین امام ہیں۔ زارا محمد نے جب بارنٹ سے پوچھا کہ ان کا خاتون امام سے کیا مطلب ہے؟ کیا ان کا مطلب عیسائیوںکی پادری راہبہ ہے تو بارنٹ کوئی جواب نہیں دے سکیں۔
زارا محمد سے بارنٹ کے سوالات سے اسلامو فوبیا عیاں تھا اور اورینٹلسٹ کی یہ پرانی رائے جھلک رہی تھی کہ اسلام عیسایت سے ملحق توسیع ہے۔ اورینٹلسٹس کی یہ رائے اس وقت سامنے آئی تھی جب برطانوی نو آبادیات کے اہل کار مسلم اکثریت والے علاقوں میں اسلام اور وہاں عوام کے انداز زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ غرض طرح طرح سے اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور
اس وقت بڑی تیزی سے اسلامو فوبیا کی آڑ میں مسلمانوں سے نفرت بڑھ رہی ہے اور روزگار کے میدان میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کی وبا نے ان مشکلات میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ حال میں تشویش ناک پہلو اسکولوں میں اسلام سے نفرت کی لہر ہے۔ اس وقت برطانیہ میں تین لاکھ مسلم نوجوان تعلیمی نظام میں ہیں ان میں سے بیش تر تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں خاص طور پر حجاب پہننے والی خواتین اور طالبات۔ جہاں تک ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے حالات بہت دگر گوں ہیں۔ حکمران ٹوری پارٹی کے آدھے سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ مسلمانون کو برطانیہ کا وفا دار تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ یہ برطانیہ میں اپنے علاقوں میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حزب مخالف لیبر پارٹی کے بیش تر مسلم اراکین پارٹی میں انٹی زائینسٹ تحریک کا شکار ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ روایتی طور پر مسلمان لیبر پارٹی کے حامی اور پیش پیش رہے ہیں لیکن جب سے اسرائیل نے اسرائیل کے خلاف پالیسی اور فلسطینیوں کی حمایت کو یہودیوں کے خلاف پالیسی قرار دے رکھا ہے جس کے بعد کسی کی جرأت نہیں کہ وہ اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کر سکے۔ مسلمان فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے ان خطرات کو سوچتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے مسلمان حامی بھی اس ڈرپ میں آگئے ہیں۔ اس صورت حال نے برطانیہ میں اسلاموفوبیا کو بڑے کڑے انداز سے گھیر رکھا ہے اور دور دور تک اس میں کوئی تبدلی نظر نہیں آتی۔