ڈاکٹر لیاقت علی کوثر: آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

492

ہر گزرتے دن، رونماء ہونے والے واقعات اور برق رفتار ذرائع ابلاغ سے موصول ہونے والی افسوسناک، اندوہناک اور دل کو افسردہ وپژ مْردہ کردینے والی اطلاعات سے یہ حقیقت اپنا نقش مزید گہرا کرتی جارہی ہے کہ یہ دنیا دھوکے کا گھر اور مچھر کا پَر ہے، مکڑی کا جالا اور فریب کا ہالہ ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں یکے بعد دیگرے ایسے ایسے ہیرے پیوندِ خاک ہوگئے جن کی زندگی اور روز وشب میرے لیے مشعل راہ تھے، محترم ومکرم سیدمنور حسن کے بعد چودھری عزیر لطیف، برادرِمکرم عبدالغفار عزیز سابق امیرِ ضلع بہاولپور ڈاکٹر محمد اشرف، سراج الحق کی عظیم اورباہمت والدہ ماجدہ کے بعد شیر ِ لاہور حافظ سلمان بٹ اور اب اُن کے پیچھے پیچھے ساہیوال ڈویژن کی پہچان، اوکاڑا کے مظلوم عوام کے ترجمان اور نوجوانوں کے لیے مثل ِ سائبان، ماہر سرجن، جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس ِ شوریٰ کے رکن، ضلع اوکاڑا کے سابق امیر اور جماعت اسلامی کے گروپ لیڈر برائے قومی اسمبلی ڈاکٹر لیاقت علی کوثر آج 10 فروری 2021 بروز بدھ اپنے ربّ کے حکم کے عین مطابق عارضی وفانی دنیا سے دارالبقاء کی طرف عازمِ سفر ہوگئے اِنّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْون
ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف کم وبیش 20 سال پہلے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق محبت میں یوں ڈھلا کہ ڈاکٹر صاحب عملاً میرے بڑے بھائی اور میں اْن کا چھوٹا بھائی بن گیا، وہ مجھ سے اور میں اْن سے ملاقات کے بہانے تلاش کرتا رہتا، لاہور سے ڈیرہ غازی خان آتے ہوئے یا ڈیرہ غازی خان سے لاہور جاتے ہوئے میں اْنہیں اوکاڑا کے قریب پہنچ کر جب کال کرتا اور یہ شعر پڑھتا
’’ہم تیرے شہر میں موجود ہوں اور تو نہ ملے
یہ تجھے کیسے گوارا ہے ذرا آجاؤ‘‘
تو فوراً پنجابی میں پوچھتے ’’کِتھے اَپڑے او‘‘ اور فرماتے کہ کھانا تیار ہے اور میں آپ کا منتظر… بس آجائیں۔ پھر اْن سے ملاقات کرتے ہی سفر کی ساری تکان دور ہوجاتی، ڈاکٹر صاحب کی پْرخلوص اور پُر تکلف مہمان نوازی اور مختلف تنظیمی اور سیاسی اْمور پر طویل نشست جاری رہتی، پھر ڈاکٹر صاحب چبھتے سوالات، بل کھاتے اعتراضات اور آخر میں خندہ پیشانی کے ساتھ جماعت اسلامی کے احسانات کا تذکرہ کرتے اور فرماتے زندگی کے آخری لمحے تک جدوجہد کرکے اللہ کے سامنے سرخروئی کی تمنا ہے اور ان شاء اللہ حقیقی کامیابی کی منزل نصیب ہوجائے گی، جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت بھی ہے اور عصرِ حاضرکی اپنی نوعیت کی منفرد تحریک بھی، گمبھیر سیاسی معرکوں اور آمریتوں کے مقابل کشمکش میں اترنا اور پنجہ آزمائی کرنا اِس کا طرۂ امتیاز ہے، جنرل پرویز مشرف کی آمریت اور ایمرجنسی پلس کے دور میں جماعت اسلامی نے جو شاندار جدوجہد کی اْس سے ایک زمانہ واقف ہے، جماعت نے پاکستان بارکونسل کی اپیل اور اے پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق جب الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اس فیصلے کو فوری طور پر قبول نہ کیا بلکہ اوکاڑا واپس آکر الیکشن مہم کے فعال ورکرز سے ملاقات کرکے بائیکاٹ کرنے کے بارے میں مشاورت شروع کردی، مجھے مرکز جماعت کے ایک نہایت محترم راہنماء نے ہدایت دی کہ آپ ڈاکٹر صاحب سے بات کریں کہ اجتماعی فیصلہ ماننے میں ہی ہماری عزت اور شان ہے، میں اگلے روز اوکاڑا آیا اور اُس وقت کے امیر ضلع فاروق شیخ کے ساتھ شیخ اظہرمحمود مرحوم کے گھر پہنچا ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لے آئے اور بالکل مختصرگفتگو کے بعد اُن کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور مجھ سے بغلگیر ہوکر کہنے لگے کہ دوسری پارٹیوں میں دنیا کے کسی ایوان کی رکنیت تو مل جائے گی لیکن یہ بھائیوں کا پیار اور خلوص صرف جماعت اسلامی کا ہی خاصا ہے، اِسے کسی طور بھی نہیں چھوڑا جاسکتا، میں نے ان سے ہنستے ہوئے کہا کہ جماعت کے ڈسپلن کی پابندی ہی سے آپ ڈاکٹر عذرا بتول کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے، بہرحال مجلس میں شریک دوستوں کے سامنے انہوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے اگلے روز کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔
ڈاکٹرصاحب نے اوکاڑا میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیر کی حیثیت سے طویل عرصہ خدمات سرانجام دیں، سیاسی محاذ پر پوری ثابت قدمی سے ڈٹے رہے، اپنے گاؤں کی یونین کونسل سے اپنے بھائی کو الیکشن لڑایا اور بھرپور کامیابی حاصل کی، متحدہ مجلس ِ عمل کے ٹکٹ پر ڈاکٹر صاحب نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور 25 ہزار ووٹ حاصل کرکے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کیا، حلقے اور ضلع کے عوام کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے، انتظامیہ اور افسران سے پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ تعلق رکھتے، عوامی حقوق کی بازیابی کے لیے ہتھکڑیوں کا زیور بھی پہنا اور حوالات و زنداں کی کوٹھڑیوں کے مکین بھی بنے، اللہ کے خوف سے اپنے دل کو معمور رکھا اور دوسرے ہر خوف سے بے نیاز رہے، ایک قابل سرجن اور ماہر ڈاکٹر کی حیثیت سے نادار اورغریب مریضوں کا علاج، کارکنان جماعت اسلامی کی خبر گیری اور اْن کے مسائل حل کرانے میں خوب دلچسپی لیتے، ڈاکٹروں، کسانوں، وکلا، مزدوروں، نوجوانوں اور دیگر طبقہ ہائے زندگی کے ساتھ دھرنوں، مظاہروں اور انتظامیہ سے مذاکرات میں پیش پیش رہتے، ڈاکٹر صاحب کی انہی خصوصیات اور اوصاف نے اْنہیں مرجع ِ خلائق کے منصب پر فائز کردیا تھا، کلینک اور اسپتال میں مصروفیت، جماعت اسلامی کے تنظیمی اجتماعات میں شرکت، لاہور تک مسلسل آمد ورفت، حلقے کے عوام کی خوشی،غمی، جنازوں، دیگر پروگرامات میں حاضری کے باوجود الحمدللہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اہل خاندان کی تمام ضروریات پوری کرنے میں کبھی پیچھے نہ رہے، اللہ کے فضل وکرم سے اْن کے بیٹے اور بیٹیاں تعلیمی اعتبار سے بہت لائق فائق تو ہیں ہی لیکن تحریکی اعتبار سے بھی ماشاء اللہ اْن کا صدقہ جاریہ ہیں، ڈاکٹر صاحب نے اپنے سب بچوں کو ڈاکٹر عذرا بتول صاحبہ کی خواہش کے عین مطابق تعلیم دلائی، بیمار ہونے سے چند دن پہلے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے میڈیکل کالج میں داخلہ کا میرٹ بننے پر بہت مسرور تھے اور فون پر جب میں نے مبارک باد دی تو خوشی سے نہال ہوکر فرمانے لگے کہ ڈاکٹر عذرا کی آخری بیٹی بھی اب میڈیکل کالج کی طالبہ بن گئی ہے، یہ میری بہت بڑی کامیابی ہے کہ میں نے اپنی وفا شعار اور غم گسار اہلیہ کی اس نشانی کوکامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھ لیا ہے۔
مرحوم کے ماشاء اللہ چھ بیٹے ہیں، ڈاکٹر حسن، ڈاکٹر ابوبکر، حارث، قاسم، عبدالرحمن اور احسن اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں جبکہ دو بیٹیاں پہلے ہی ڈاکٹر بن چکی ہیں اور تیسری اور اب آخری بیٹی کا بھی شیخ زید میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ ہوگیا ہے، ڈاکٹر صاحب کی وفات سے جماعت اسلامی ایک محنتی اور انتھک عوامی راہنماء سے محروم ہوگئی ہے اور اہل ِ اوکاڑا ایک دبنگ لیڈر کے دنیا سے چلے جانے پر غمگین ہیں، 5 بجے شام اوکاڑا شہر میں مرحوم کی نمازِ جنازہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی راہنماء حافظ محمد ادریس نے پڑھائی اور یہ بہت بڑا جنازہ تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، 7بجے رات ان کے گاؤں میں نمازجنازہ اداکی گئی اور ڈاکٹر صاحب کو اْن کی بہت ہی محبوب اور حلیم الطبع، سلیم فطرت، نیک طینت، پاکباز اہلیہ ڈاکٹر عذرا بتول کے پہلو میں سْپردِ خاک کردیا گیا،
تدفین کے موقع پر میں نے بہت دْکھی دل کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر اْن کا دیدار کیا، میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کے دین کی اقامت میں مصروف یہ مجاہد اب آرام سے اپنی لحد میں سکون کی نیند سوئے گا کیونکہ دنیا میں حیاتِ مْستعار کی مہلت پوری ہوچکی، اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، قیم صوبہ بلال قدرت بٹ، قیصر شریف اور امیرِ ضلع ڈاکٹر بابر رشید اور سیکڑوں مداحین اور لواحقین موجود تھے دعائے کے بعد ڈاکٹرصاحب کو ’’الوداع‘‘ کہتے ہوئے بوجھل قدموں سے واپس اْن کے گھر آکر بیٹوں، عزیزوں اور جماعت اسلامی اوکاڑا کے ساتھیوں سے تعزیت کی اور واپس ڈیرہ غازی خان کی طرف چل پڑا۔ الوداع ڈاکٹر لیاقت علی کوثر صاحب! آپ کے لیے دعا گو ہوں کہ
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے