‘پھر آرڈیننس’ اداروں پر عدم اعتماد

925

پاکستان میں حکمران من مانی کرنے یا اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین اور قانون کو ہمیشہ بالائے طاق رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر آرڈیننس فیکٹری نے کام شروع کردیا ہے۔ صدر عارف علوی نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ عمران خان کی حکومت اس وقت جس مشکل میں ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ جمہوریت اور اصولوں کی رٹ لگانے والی حکومت نے اپنے ارکان اسمبلی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ اس کے صدر کی جانب سے آرڈیننس اسمبلی، پوری پارلیمنٹ اور جمہوری نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف یہ ہوگا کہ جو ارکان آزادانہ طور پر خفیہ بیلٹ کے ذریعے حکومت کے خلاف رائے دینا چاہتے تھے ان کو آزادانہ رائے دہی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اب جو رکن بھی حکومت کے خلاف ووٹ ڈالے گا وہ سامنے آجائے گا پھر اس کے خلاف نیب کیسز اور تادیبی کارروائیاں شروع کرنا آسان ہوجائے گا۔ آرڈیننس کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن کو ووٹ دکھانے کی درخواست دے سکے گا اور الیکشن کمیشن اس آرڈیننس پر عمل کا پابند ہوگا۔ اس قسم کے آرڈیننس کا مقصد کیا ہوسکتا ہے، سوائے اس کے کہ حکومت کو عدالت اور پارلیمنٹ دونوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اس آرڈیننس نے بہت سارے سوالات پیدا کردیے ہیں، آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس پر عملدرآمد صدارتی ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مشروط ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مشروط کرنا تھا تو اس آرڈیننس کی ضرورت کیا تھی۔ جب تک فیصلہ نہیں آتا اس وقت تک حکومت کو انتظار کرنا چاہیے تھا۔ لیکن حکومت کی صفوں میں ہلچل اور بے چینی بتا رہی ہے کہ اس کا اعتماد بْری طرح متزلزل ہے۔ آرڈیننس جاری کرکے پی ٹی آئی نے بیک وقت کئی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں اس پر قانون سازی کرانے کی ہمت نہیں رکھتی، اس لیے اسے وہاں نہیں لے گئی۔

پارلیمنٹ موجود ہوتے ہوئے آرڈیننس جاری کرنے کا مطلب پارلیمنٹ، اپنی پارٹی اور فیصلوں پر عدم اعتماد ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا آرڈیننس جاری کرکے حکومت نے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ہم آرڈیننس سے کام چلائیں گے۔ ووٹ کی حرمت، ووٹ کا تقدس، جمہوری اقدار کا یہ کہہ کر جنازہ نکالا جارہا ہے کہ پارٹی جب چاہے ووٹ کا معائنہ کرسکے گی۔ عدلیہ نے اسی رویے کو سیاسی جماعتوں میں آمریت قرار دیا ہے۔ پھر پارٹی اور سیاسی معاملات کا لبادہ اوڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ حکومت کو آخر جلدی کیا ہے، بے چینی کیا ہے، اس کا جواب صرف یہ ہے کہ اسے جلدی ہے نہ بے چینی اسے سرف شکست کا خوف ہے۔ اس خرابی میں اپوزیشن بھی شامل ہے، اس میں شامل پارٹیاں جب اقتدار میں آتی ہیں تو وہ بھی کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتیں، ان کا کام بھی اقتدار کو طول دینا ہوتا ہے اگر ان پارٹیوں نے پارلیمانی نظام کو مستحکم کیا ہوتا، پارلیمانی روایات اور اقدار کا احترام کیا ہوتا تو ان کو آج حکومت کے خلاف آئینی دائروں میں تحریک چلانے میں آسانی ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کو دوستی کے پیغامات نہ بھیجنے پڑتے۔ سینیٹ الیکشن کے قضیے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ عدلیہ کے سامنے زیر سماعت صدارتی ریفرنس ہے۔

عدالت میں یہ ریفرنس زیر سماعت ہے اور سماعت موخر نئی تاریخ کا تاخیری حربہ بھی بوجوہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا سبب اپوزیشن سرکاری وکیل یا عدالت کا نظام کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ معاملات کو ایک منصوبے کے تحت طول دیا جارہا ہے اور آخری وقت میں فیصلے آنے کے بعد کسی کو کچھ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اگر عدلیہ سے جلد فیصلہ مل جاتا تو حکومت بھی مزید بے نقاب ہوجاتی۔ حکومت نے آرڈیننس جاری کرکے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کھینچا تانی میں قومی معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔اور مافیا مزے میں ہے۔ پھر وزیراعظم کہتے ہیں کہ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ گویا وہ مافیا کو مسلسل فائدہ پہنچانے والے کام کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سینیٹ الیکشن کے لیے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ سینیٹ کے تقدس کے دعویدار ہیں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ان پارٹیوں نے بھی جمہوریت اور پارلیمنٹ کا تقدس خوب پامال کیا ہے۔ اگر ان کو کامیابی مل بھی گئی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ کوئی پائیدار جمہوری نظام قائم کرنے کا کام کریں گے۔