مشرقِ وسطیٰ اور جوبائیڈن کے فیصلے – مسعود ابدالی

565

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ابھی تک تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سمیت وفاقی کابینہ اور تمام کلیدی اسامیوں پر تقرریوں کے لیے سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ صدر بائیڈن کے نامزد کردہ وزرا آج کل سینیٹ کی متعلقہ مجالسِ قائمہ کے روبرو پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کمیٹی کے پلِ صراط سے گزرنے کے بعد سینیٹ میں رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے۔ توثیق میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ سینیٹ کی دوسری مصروفیات ہیں۔کورونا سے جو معاشی تباہی آئی ہے اس میں امریکی عوام کو وقتی راحت پہنچانے کے لیے ایک امدادی بل (Stimulus Package) کے علاوہ سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے پر سینیٹ کے ارکان باہمی مشوروں میں مصروف ہیں۔

حکمران جماعت کو ایوانِ بالا پر تکنیکی برتری حاصل ہے، کہ ووٹ برابر ہونے کی صورت میں سینیٹ کی سربراہ کی حیثیت سے اپنا فیصلہ کن ووٹ سرکار کے حق میں ڈال کر نائب صدر صاحبہ مسودۂ قانون یا قرارداد منظور کروا سکتی ہیں، لیکن 100 رکنی سینیٹ میں دونوں جماعتیں پچاس پچاس سے برابر ہیں۔ یعنی حکمراں پارٹی کے کسی ایک رکن کی بھی رائے تبدیل ہوئی تو شکست یقینی ہے۔ اسی وجہ سے صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہے، اور غیر معمولی احتیاط و سوچ بچار سے قانون سازی میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ تادم تحریر صرف وزیر خزانہ، وزیردفاع، وزیرخارجہ اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جینس کی سینیٹ سے توثیق ہوسکی ہے۔

توثیق میں تاخیر سے بائیڈن انتظامیہ کو مشکل تو ہے لیکن امریکی صدر اپنی ٹیم کا انتخاب کرچکے ہیں اور مستقبل کی صورت گری کا کام بھرپور انداز میں جاری ہے۔ بلاشبہ ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی کورونا عوام و حکمراں سب کے اعصاب پر چھایاہوا ہے۔ ہلاکت و تباہ کاری کے اعتبار سے اس جرثومے نے امریکہ کواپنا بنیادی ہدف بنا رکھا ہے، اور اوسطاً ہر روز چار ہزار کے قریب لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ چنانچہ بین الاقوامی معاملات پر پیش رفت کسی حد تک سست ہے۔ گزشتہ نشست میں ہم نے بائیڈن انتظامیہ کی متوقع افغان پالیسی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ آج کچھ سطور بائیڈن انتطامیہ کی مشرقِ وسطیٰ حکمت عملی پر۔

مشرق وسطیٰ کو بنیادی طور پر دو بڑے تنازعات کا سامنا ہے، اور ان دونوں تنازعات کے ڈانڈے باہم ملے ہوئے ہیں۔ پہلا تنازع یعنی مسئلہ فلسطین ایک بدترین انسانی المیہ بن چکا ہے۔ یہ دراصل انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔ ’’مہذب دنیا‘‘ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ اور غربِ اردن کھلی چھت کے جیل خانے ہیں، بلکہ انھیں وسیع و عریض عقوبت کدے کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کہ جیل میں بند قیدیوں کو غذا، لباس اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، نظربند قیدیوں کو نظامِ انصاف تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جبکہ پنجرے میں بند فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ کسی کمیشن کی ضرورت ہے اور نہ اضافی مذاکرات کی۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اُن کی روح کے مطابق عمل ہوجائے تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہوسکتا ہے۔

علاقے کا دوسرا بڑا مسئلہ ایران کی مبینہ جوہری امنگ اور اس حوالے سے خلیجی ممالک اور اسرائیل کی تشویش ہے۔ ایران سے متعلق تنازعات و شکوک و شبہات کا جائزہ لیا جائے تو اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

٭امریکہ اور یورپ کو ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ وہ جوہری توانائی کو ترقی اور پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، لیکن مغربی دنیا کو تہران کی یقین دہانی پر اعتماد نہیں۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی جس سطح پر کررہا ہے، پُرامن مقاصد کے لیے اس کی ضرورت نہیں، اور ان سرگرمیوں سے جوہری ہتھیار کے لیے ایران کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ تل ابیب کا خیال ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنالیے تو اس کا ہدف اسرائیل ہوگا۔

٭اسرائیل کو ایران سے اس کے جوہری پروگرام کے علاوہ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ تہران حزب اللہ اور شامی حکومت کو فوجی امداد فراہم کررہا ہے۔ تل ابیب ان دونوں کو دشمن نمبر ایک اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیتا ہے۔

٭خلیجی عرب ممالک کا خیال ہے کہ ایران ان ملکوں کی شیعہ آبادی کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی مثال دی جاتی ہے جہاں ایران نے مبینہ طور پر حوثی باغیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو عملاً مفلوج کردیا ہے۔ اتفاق کی بات کہ سعودی عرب، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات چاروں کے خلیجی ساحل پر شیعہ آباد ہیں۔ دوسری طرف ایران کو شکوہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کی سنی آبادی کو حکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ تہران کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں بھی شیعوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے، اور تہران کے مطابق پاکستانی بلوچستان خاص طور سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں میں سعودی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔

ایران عرب تنازعے کی بہت بھاری قیمت یمن کے بے گناہ ادا کررہے ہیں جو خلیجی بمباری اور متحارب گروہوں کی گولہ باریوں سے کھنڈر بن چکا ہے۔ آب پاشی و آب نوشی کے وسائل تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے زرعی زمینوں پر دھول اُڑ رہی ہے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ مویشی یا تو بھوک سے ہلاک ہوگئے، یا ان کے مالکان نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے انہیں ذبح کرڈالا۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق غذا کی کمی نے نصف سے زیادہ یمنی بچوں کو معذور کردیا۔ اس رپورٹ کو پڑھنا ہی اتنا مشکل ہے، ہم اسے یہاں نقل کیسے کریں!۔

صدر جوبائیڈن نے وزارتِ خارجہ، سی آئی اے اور قومی سلامتی کے لیے جن افراد کا انتخاب کیا ہے ان کے سرسری جائزے سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی افق، خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی اوباما پالیسی کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ جناب بائیڈن نے وزارتِ خارجہ کے لیے 58 سالہ انتھونی بلینکن کا انتخاب کیا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی جناب بلینکن بارسوخ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد ہنگری اور چچا بیلجیم میں امریکہ کے سفیر تھے۔ اسرائیل کی تشکیل میں ان کی دادی جان کا بہت اہم کردار تھا۔ محترمہ نے اسرائیلی ریاست کی اقتصادی امکان پذیری (Economic Feasibility)کا جائزہ لینے کے لیے ماہرینِ معاشیات کا ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل اور فلسطینیوں کے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے محترمہ نے امریکی فلسطین انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد بھی رکھی۔ جناب بلینکن پر ایوانِ اقتدار کا دروازہ 2009ء میں کھلا جب نائب صدر جوبائیڈن نے انھیں قومی سلامتی کے لیے اپنا مشیر مقرر کیا۔ تین سال بعد صدراوباما نے جناب بلینکن کو اپنا نائب مشیر برائے قومی سلامتی بنالیا، اور ان کا خالی ہونے والا منصب جیک سولیون کو عطا ہوا جو اب صدر بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔

صدر اوباما کے نائب مشیرِ سلامتی کی حیثیت سے بلینکن صاحب کو افغان حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کے مشورے پر ڈرون حملوں نے افغانستان اور شمالی وزیرستان میں جو تباہی مچائی وہ تاریخ کا حصہ ہے، لیکن اس خونریزی کے باوجود طالبان کی کمر نہ توڑی جاسکی، اور دو سال بعد ان کی جگہ سراغ رسانی کی ماہر محترمہ ایورل ہینزکا تقرر کرکے بلینکن صاحب نائب وزیر خارجہ بنادیے گئے۔ 51 برس کی محترمہ ہینز بھی ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں جنھیں نئی انتظامیہ میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جینس تعینات کیا گیا ہے۔

صدر بائیڈن کے وزیرخارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی طرح سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر ولیم برنس بھی 3 سال تک صدر اوباما کی کابینہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔ جناب برنس ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں جو روس اور اردن میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ولیم برنس اور انتھونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جوبائیڈن کے بہت قریب ہیں، اور صدر اوباما کے دور میں انھیں خاصا عروج ملا۔

خارجہ امور، قومی سلامتی اور بین الاقوامی سراغ رسانی کے لیے جن لوگوں کا جناب بائیڈن نے انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب اسرائیل کے دل وجان سے حامی ہیں، لیکن گزشتہ چند سال کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں انصاف و اعتدال کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ اس دھڑے نے خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے منظم کرلیا ہے جس کے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں، لیکن اس کی روحِ رواں امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی)کی ’چارلڑکیاں‘ یعنی الحان عمر، رشیدہ طلیب، الیگزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔ اس ’’چار کے ٹولے‘‘ کو صدر ٹرمپ ’’اسکواڈ‘‘ کہتے تھے۔ حالیہ انتخابات کے بعد اس ’ٹولے‘ میں ایک ’لڑکی‘ کوری بُش اور ایک ’سرپھرے لڑکے‘ جمال بومن کا اضافہ ہوگیا ہے۔کیلی فورنیا کے روکھنہ کے علاوہ تین دوسرے ارکان کے ساتھ ایوانِ نمائندگان میں جسٹس ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم اب 10 ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کی بڑھتی ہوئی قوت کا جوبائیڈن کو اندازہ ہے، اور اسی دبائو کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے انتخابی منشور میں مشرق وسطیٰ کے لیے دو ریاستی حل، یمن جنگ کا غیر جانب دارانہ جائزہ، جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات، اور ایران کے جوہری پروگرام کے پُرامن تصفیے کا وعدہ کیا۔

انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت معطل کردی۔ صد ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے انعام کے طور پر متحدہ عرب امارات کو 23 ارب ڈالر کے عوض پچاس F-35طیارے فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد متحدہ عرب امارات دوسرا ملک ہے جسے F-35طیارے فروخت کیے جارہے ہیں۔ ضابطے کے تحت F-35 جیسے کلیدی نوعیت کے اسلحہ کی کسی دوسرے ملک کو فروخت سے پہلے امریکی سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے دفاع سے توثیق ضروری ہے، لیکن سابق امریکی صدر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سینیٹ سے بالا بالا فروخت کی منظوری دے دی تھی۔ صدر ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ اسلحہ کی فروخت سے امریکہ میں ملازمتوں کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

اسی کے ساتھ سعودی عرب کو جدید ترین اسمارٹ بموں کی فروخت بھی معطل کردی گئی ہے۔ بوئنگ کمپنی کے تیار کردہ 8 انچ سے بھی پتلے یہ بم زیرزمین مورچوں، بنکروں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوں کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے 3000 اسمارٹ بم خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس کی مجموعی قیمت 30 کروڑ ڈالر ہے۔ سینیٹر برنی سینڈرز اور رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان بموں کے یمن میں استعمال سے شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا۔

امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئی انتظامیہ حال ہی میں کیے جانے والے دفاعی سودوں کا جائزہ لے رہی ہے، اور جب تک نظرثانی مکمل نہ ہوجائے معاہدے پر عمل درآمد کو معطل کیا جارہا ہے۔ اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے کہا کہ اسلحہ کی فروخت سے پہلے بائیڈن انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ سودا علاقے اور دنیا میں امن و استحکام کے حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی اور اس کی ترجیحات کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارتِ خارجہ معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہے اور کام مکمل ہونے تک اسلحہ کی فراہمی شروع نہیں ہوگی۔

انتخابی مہم کے دوران صدر جوبائیڈن نے ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں خونریزی روکنے کے لیے امریکہ کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری آبادی پر بمباری کے لیے امریکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے اور وہ برسرِاقتدار آکر خلیجی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت پر نظرثانی کریں گے۔ گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی نے سعودی عرب کو بموں کی فراہمی روکنے کے لیے سینیٹ میں قرارداد بھی پیش کی تھی، لیکن ری پبلکن پارٹی نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔

اس ضمن میں ایک اور چشم کشا پیش رفت امریکی وزارتِ خارجہ کا وہ اعلان ہے جس کے تحت یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کے لیے ہٹالیا گیا ہے۔ امریکہ نے ایران نواز حوثیوں کے ’طرزعمل‘ کا دوبارہ جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے۔ نظرثانی کے دوران حوثیوں کے خلاف دہشت گردی کا ’فتویٰ‘ معطل رہے گا۔ امریکی وزارتِ خزانہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکی ادارے امدادی سامان کی نقل و حمل کے لیے 26 فروری تک حوثیوں سے محدود لین دین کرسکتے ہیں، تاہم نامزد دہشت گرد رہنمائوں سے کسی قسم کے معاملے کی اجازت نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران نواز حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان سے کسی بھی قسم کے لین دین اور رابطے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

ایران کے حوالے سے ایک اور اہم قدم ممتاز سفارت کار جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley)کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران نامزدگی ہے۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ کا تعلق بھی جسٹس ڈیموکریٹس دھڑے سے ہے۔ جناب ملے کو صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امورکے لیے اپنا خصوصی مشیر مقررکیا تھا۔ جولائی 2015ء میں ایران جوہری معاہدہ ’برنامیج‘ یا JCPOA جناب ملے کی کامیاب سفارت کاری کا کمال قراردیا جاتا ہے۔ دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا تھا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جس کے بعد انھوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کردی۔ ردعمل میں ایران نے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردی ہے۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015ء کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ اگر ایران JCPOAکی شرائط پر مخلصانہ عمل درآمد کی یقین دہانی کروا دے تو امریکہ معاہدے میں واپس آجائے گا۔

رابرٹ ملے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اور مشرق وسطیٰ امن کے حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطین میں حماس اور علاقے میں اخوان المسلمون بہت بڑی سیاسی قوت ہیں جنھیں غریبوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اخوان کے بارے میں دہشت گرد و انتہاپسند ہونے کا تاثر غیر حقیقی ہے، اور ساتھ ملا کر اخوانیوں کے رویّے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے علاقے میں قیام امن اور خوشحالی کے لیے مصر میں اُس وقت کی اخوانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

صدر جو بائیڈن کے ان اقدامات کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران تقرری ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحہ کی فراہمی معطل کرنے، یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کے لیے ہٹانے، اسرائیل فلسطین دو قومی ریاست پر بائیڈن انتظامیہ کے اصرار، اور جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امر یکی حکومت کے طرزعمل میں ایک ’موہوم و مبہم‘ سی تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ لیکن یہاں اسرائیل نواز سیاسی قوتوں کی جڑیں بہت گہری اور پہنچ بہت دور تک ہے۔

جوبائیڈن خود بھی اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔ امریکی صدر فلسطینی اراضی پر صہیونی بستیوں کی تعمیر کے مخالف تو ہیں لیکن وہ اس کے لیے ’قبضے‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتے، نہ ہی وہ امریکہ کے اس سرکاری بیانیے میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں جس کے مطابق ’’اسرائیلی نوآبادیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں‘‘۔ دوسری طرف جسٹس ڈیموکریٹس فلسطینیوں کے حقوق اور ایران جوہری تنازعے کے پُرامن حل کے لیے پُرعزم نظر آرہے ہیں۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کے معاملے میں صدر بائیڈن سے ایک مبنی برانصاف حکمت عملی کی توقع رکھتے ہیں۔

(This article was first published in Friday Special)