رنج وغم کا علاج

387

 

رنج وغم اور اضطراب سے بچنے کے لیے علم و آگہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم حق کا، اپنی ذات کا اور اپنے دور کے احوال وکوائف کا، جس دنیا میں انسان رہتا ہے اور جن چیزوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، ان سے واقفیت ضروری ہے۔ آج انسان کائنات اور کائنات کی چیزوں کے بارے میں بہت باریکی سے مطالعہ کررہا ہے۔ مگر اپنے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم۔ وہ اپنے سے واقف ہونا چاہتا بھی نہیں۔
اس عدم واقفیت اور بے خبری کی وجہ سے وہ حقیقی سکون سے نا آشنا ہی رہتا ہے۔ حقیقی سکون ومسرت کے لیے خود آگہی ضروری ہے۔
اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے آزمائش گاہ بنایا ہے۔ انسان کو خیر وشر کی تمیز بخشی گئی ہے۔ اس سے اس کا امتحان لینا مقصود ہے۔ انسان کی حیثیت دنیا میں ایک امتحان دینے والے طالب علم کی سی ہے۔ امتحان میں اگر وہ کامیابی حاصل کرتا ہے تو آخرت اسی کے لیے ہے۔ اگر وہ خدا کی رہنمائی میں زندگی بسر کرتا ہے تو اس کے لیے کسی خوف کی کوئی بات نہیں۔ اسے خدا پر یقین بھی ہوگا اور اس کی کتنی ہی امیدیں اپنے رب سے وابستہ ہوںگی۔ یاس اور ناامیدی اس کے پاس نہیں آسکتی۔ حْسن ظن باللہ (اللہ سے اچھی اْمید) اس کی زندگی کا سرمایہ ہوگا۔
علم کے بعد ہی انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مقصد زندگی سے واقف ہوکر آگے بڑھتا اور کامیابی کے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے‘‘۔ (مجادلہ: 11)
حسد سے اجتناب، وسعت قلبی
دُکھوں اور غموں سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر وسعت قلبی، کشادہ دلی اور وسعت نظر پیدا کرے۔ ساری دْنیا کواللہ کا کنبہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات اوراس کی نوازشوں کی وسعتوں کو پیش نظر رکھے۔ اسی طرح انسان حسد سے بچ سکتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کوکھا جاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
انسان کو جاننا چاہیے کہ کسی کے برا چاہنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر اللہ کی مشیت نہیں ہے تو حاسد کے برا چاہنے سے اس کے دشمن کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ حاسد کو سوائے رنج وغم کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہٰذا حسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔ ’’اللہ نے جو تم میں سے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘۔ (نساء: 32)
اور حاسدوں سے بچنے کے لیے اللہ نے جو دعا سکھائی ہے اس کا وِرد کرتے رہنا چاہیے۔ (سورہ فلق و الناس)
سخاوت، فیاضی، ایثار
دکھوں اور غموں کا ایک علاج یہ ہے کہ انسان اپنے اندر فیاضی، ایثار پسندی کے اوصاف پیدا کر ے۔ فیاضی جود وسخاوت، ایثار وقربانی یہ بہت اہم اور مطلوبہ صفات ہیں جن سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ انسان اپنے کسی حق کو بخوشی کسی دوسرے کو بخش دے، اپنا حق چھوڑدے، اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے، اپنا بچا ہوا مال دوسروں پر خرچ کردے یا اپنی ضروریات کے باوجود دوسروں پر خرچ کرے ان تمام صورتوں میں انسان کو نہ صرف یہ کہ غم سے نجات ملے گی بلکہ اسے وہ روحانی خوشی حاصل ہوگی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے خوشگوار تعلقات بھی پیدا ہوں گے۔ آخرت میں درجات بھی بلند ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ ( تغابن: 16)
’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (حشر: 9)
نبی اکرمؐ نے فرمایا : ’’اللہ اْس شخص پر رحم فرمائے جو ہر حال میں فیاض ہے چاہے جب وہ بیچے، خریدے یا جب وہ اپنے حق کا مطالبہ کرے‘‘۔ (بخاری)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے ایسے شخص کو دعا دی ہے جو زندگی میں مختلف مواقع پر فیاضی وایثار سے کام لیتا ہے یعنی جب گاہک کو تول کردیتا ہے تو ترازو کا پلڑا جھکا رکھتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم نہ تولے بلکہ زیادہ تولے۔ جب خود خریدتا ہوتا ہے تو زیادہ کا حریص نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب کسی سے اپنے حق کا تقاضا کرتا ہے تو نرمی سے کام لیتا ہے اور ضرورت محسوس ’’سخی خدا سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے‘‘۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ لوگ دوسروں کے حقوق کے ادا کرنے میں فیاضی کو پیش نظر رکھیں۔ معاملات میں خوشگواری اسی سے پیدا ہوسکتی ہے۔
’’اور آپس میں حق سے بڑھ کر دینا نہ بھولو۔ یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے جوکچھ تم کرتے ہو‘‘۔ (البقرہ: 237)
نبیؐ نے فرمایا: ’’خرچ کرو، گنو مت‘‘۔ (بخاری و مسلم)
انسان پر اللہ کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ان کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا، جب انسان ان نعمتوں کا احساس نہیں کرتا تو ناشکری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی اس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس نے وہ سب کچھ یا تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔ (ابراہیم: 34)
اگر ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو حسد کی بیماری کے پیدا ہونے کی گنجائش نہیں رہتی۔