افکار سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

297

 

جسم کا حق
اِسلامی شریعت چونکہ انسان کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اس لیے وہ اس کو خبردار کرتی ہے کہ لنفسک علیک حقّ (تیرے اوپر خود تیرے اپنے بھی حقوق ہیں)۔
وہ ان تمام چیزوں سے اس کو روکتی ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ مثلاً شراب، تاڑی، افیون اور دوسری نشہ آور چیزیں، سور کا گوشت، درندے اور زہریلے جانور، ناپاک حیوانات، خون اور مردار جانور وغیرہ۔ کیوں کہ انسان کی صحت اور اخلاق اور عقلی و روحانی قوتوں پر ان چیزوں کا بہت بْرا اثر ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ پاک اور مفید چیزوں کو اس کے لیے حلال کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ تو اپنے جسم کو پاک غذاؤں سے محروم نہ کر کیونکہ تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے۔ (دینیات)
٭…٭…٭
خدا کا خوف
خدا کا خوف، جو آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایکہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راستبازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پُرامن اور ترقی پذیر تمدن وتہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعے سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جا سکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما بس ایک حد پر جا کر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ (بناؤ بگاڑ)
٭…٭…٭
صحیح طریق زندگی
نوعِ انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور فکر وعمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے رہنمائی کی ہے۔ (دین حق)
٭…٭…٭
خرابی کی اصل جڑ
خدائے واحد کی اطاعت و بندگی سے انحراف، خودساختہ اصول و قوانین کی پیروی اور خدا کے سامنے ذمے داری و جواب دہی کا عدم احساس، یہ تھیں وہ اصل خرابیاں جو دنیا میں رونما ہوگئی تھیں انہی کی بدولت اخلاق فاسدہ پیدا ہوئے، غلط اصول زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیاء علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے۔ اخلاق فاضلہ کو نشوونما دیا جائے اور انسانی زندگی کا نظام اُن اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر وصلاح اُبھرے اور شر وفساد دبے ۔ یہی ایک مقصد تمام انبیاء کی بعثت کا تھا اور آخرکار اسی مقصد کے لیے محمدؐ مبعوث ہوئے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)