غریبوں کی دولت تو واپس کرنی ہوگی

414

پاکستانی وزیراعظم میں یہ خصوصیت ہے کہ لوگوں کو زیادہ دن ایک ہی موضوع پر سوچنے نہیں دیتے مبادا لوگ پچھلی بات اور وعدے کو یاد دلانے لگیں۔ کبھی ایک کروڑ ملازمتیں کبھی 50 لاکھ گھر اب امیر ملکوں سے مطالبہ ہے کہ غریب ملکوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس کر دیں۔ ان کا مطالبہ ہر پہلو سے بجا ہے ان کو یہی مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ امیر ممالک غریب ممالک کی دولت واپس کر دیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس اعداد و شمار بھی ہیں اور وہ اگرچہ مکمل نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ غریب ممالک کے کرپٹ سیاستدانوں کے کھربوں ڈالر بڑے ممالک کی محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ پناہ گاہیں محفوظ ہیں یا نہیں لیکن پاکستانی عوام کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی معلومات کے مطابق 70 کھرب ڈالر غریب ممالک سے ان بڑے ممالک کے قبضے میں چلے گئے ہیں جبکہ یہ رقم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت اسی وجہ سے بڑھی ہے کہ ان ممالک سے ہر سال 10 کھرب ڈالر منتقل ہوتے ہیں۔ یہ باتیں کرکے وزیراعظم نے یقیناً نیا سیاسی سوشا چھوڑا ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حکمران دوسروں کی مثال دے دے کر اپنے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کبھی کسی حکمران کی سائیکل کا ذکر آتا ہے کبھی کسی کی سادہ زندگی کا لیکن پاکستان میں رکشے میں سفر کرنے والے کے پی کے وزیر خزانہ سراج الحق کی مثال نہیں دی جاتی۔ 80 گز کے فلیٹ والے عبدالستار افغانی کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اب وزیراعظم کے تازہ فرمان پر ان کی کابینہ واہ واہ کرے گی لیکن غریبوں کی دولت امیروں سے لینے کا اصول اپنے ملک میں بھی تو نافذ کریں جن لوگوں نے غریب عوام کی دولت اپنی تجوریوں میں ناجائز طریقے سے بھر رکھی ہیں ان کی تجوریوں سے یہ رقم نکلوا کر غریبوں کو ان کا حق تو دلوائیں۔ یہی دولت تو کچھ عرصہ پاکستانی امیروں کی تجوریوں میں رہ کر بیرون ملک محفوظ پناہ گاہوں میں جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اردگرد اور ان کے حامیوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو شکر اور گنا مافیا، پیٹرولیم مافیا اور آٹا مافیا ہیں۔ ان مافیائوں نے صرف چند مہینوں میں کھربوں روپے کمائے ہیں۔ وزیراعظم کو بڑے اور امیر ممالک سے غریب ممالک کی دولت واپس کرنے کا مطالبہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن ان کے مطالبے میں وزن اور زور تب ہی پیدا ہو گا جب وہ اپنے لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا کر عوام کے حوالے کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے حساب سے 70 کھرب ڈالر سیاستدانوں نے ان محفوظ پناہ گاہوں میں چھپا رکھے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہر سال 10 کھرب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے ان ٹھکانوں میں جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے تو یہ دھندا صرف 7 برس سے جاری ہے۔ گویا 7 برس میں 70 کھرب ڈالر۔ وزیراعظم عمران خان کو کسی نے کچھ بتایا کچھ یاد رہا اور کچھ اور کہہ گئے انہیں حساب درست کرنا ہوگا۔ پاکستانی قوم اپنی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جانے والوں سے سخت نالاں ہے اسے ان سے دولت واپس ملنے کی توقع بھی نہیں ہے لیکن جو دولت اس ملک میں ابھی موجود ہے اور لٹیرے بھی موجود ہیں ان سے تو یہ رقم واپس لی جائے۔ وزیراعظم یہ تو کہہ رہے ہیں کہ امیر ممالک دولت واپس کریں لیکن اپنے پچھلے وعدے کے برخلاف عمل کر رہے ہیں۔ ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے اعلان کے بعد سے کم وبیش 20 لاکھ ملازمتیں تو وہ ختم کر چکے ہیں۔ اس پر وہ عالمی وبا کے سبب ملازمتوں کا خاتمہ تو تھا ہی اب وہ دھڑا دھڑ ادارے فروخت کر رہے ہیں۔ 23 اداروں کی فروخت کی تیاریاں جاری ہیں اب تازہ خبر آئی ہے کہ 117 ادارے بند کر دیے جائیں گے اور 70 ہزار اسامیاں ختم کر دی جائیں گی۔ جب 117 ادارے بند کیے جائیں گے تو ان میں ملازم افراد کہاں جائیں گے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ مزید بھرتیاں بھی بند کی جا رہی ہیں کہ گریڈ ایک سے 16 میں ایک سال سے خالی اسامیوں پر بھرتی نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے غرض ہر طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستانی عوام روزگار سے محروم ہو جائیں۔ ادارے ہی نہیں رہیں گے تو روزگار کون دے گا۔ پرائیوٹائزیشن میں تو اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو فارغ کرکے کسی خاص معیار کے تحت کچھ افراد کو برقرار رہنے دیا جاتا ہے۔ کم لوگوں سے زیادہ کام لے کر کچھ اضافی رقم دے دی جاتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت تو اداروں ہی کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے پھر اس اس کے سربراہ کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں پر کس طرح سے یقین کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے۔ پونے تین سال بعد یوٹرن لے کر کہتے ہیں کہ ملازمتیں ایک سال میں نہیں پانچ سال میں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب تک وہ 20 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں براہ راست ختم کر چکے ہیں اور اتنی ہی ملازمتیں ختم کرنے کے اسباب پیدا کر چکے ہیں۔ کراچی میں مارکیٹوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ دکانداروں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ کبھی ٹیکس کے نام پر کبھی ایف بی آر کے نام پر پولیس الگ بھتے لیتی ہے۔ ایسے میں ملازمتیں کون دے گا۔ پھر پانچ برس بعد حساب کر لیں کہ کیا حالت ہوگی۔ کم ازکم حکومت کے اقدامات تو ایسے نہیں لگ رہے کہ وہ اپنے کسی وعدے اور دعوے میں سنجیدہ ہے۔ امیر ممالک سے مطالبے سے قبل پاکستان کے امیروں سے غریبوں کے پیسے نکلوانے ہوں گے۔