افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

320

کفریہ عائلی قوانین
کسی حکومت کے قوانین سے نہ تو شریعت میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے اور نہ وہ شریعت کے قائم مقام بن سکتے ہیں۔ اس لیے جو طلاق شرعی قواعد کی رو سے دے دی گئی ہو وہ عند اللہ اور عند المسلمین نافذ ہوجائے گی خواہ ان قوانین کی رو سے وہ نافذ نہ ہو۔ اور جو طلاق شرعاً قابل نفاذ نہیں ہے وہ ہر گز نہ ہوگی، خواہ یہ قوانین اس کو نافذ قرار دیں۔ اب مسلمانوں کو خود سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات خدا اور رسولؐ کی شریعت کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں یا ان عائلی قوانین کے مطابق۔
(ترجمان القرآن۔ مئی 1962ء)
٭…٭…٭
حلال و حرام
ایک کافرانہ نظام تمدن و سیاست کے اندر رہتے ہوئے خالص حلال کی روٹی تقریباً محال ہے، مگر میں نے وسائل رزق کے معاملے میں حلال و حرام کی تمیز پر اپنے مضامین میں بار بار جو زور دیا ہے، اس سے میرا مقصود یہ نہیں تھا کہ حلال ذرائع یہیں کہیں موجود ہیں۔ لوگ حرام ذرائع کو چھوڑ کر ان کو حاصل کرلیں۔ بلکہ اس سے میرا مقصود یہ تھا کہ حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوجانے کے بعد ایک سچا مسلمان جب اپنے گرد وپیش کا جائزہ لے گا، تب اس کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس کفر کے تسلط کی بدولت وہ کس طرح چاروں طرف گندگیوں اور نجاستوں میں گھر گیا ہے پھر اگر واقعی وہ پاکیزگی کا خواہاں ہو تو اس کے اندر اس نجاست خیز نظام کو مٹانے اور بدلنے کا شدید جذبہ پیدا ہوگا۔ اور وہ ہر آن اس نظام سے سخت نفرت و کراہت کرے گا۔
اس اصولی بات کو سمجھنے کے بعد عملی نقطۂ نظر سے ہمارے لیے اگر کچھ ممکن ہے تو صرف یہ کہ زیادہ حرام کو چھوڑ کر کم حرام یا ملوث بہ حرام رزق کو مجبوراً گوارا کرلیں۔ خالص حلال کی قید کے ساتھ زندگی کا سامان بہم پہنچنا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ اب یہ آپ کے حالات پر اور آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ عملاً کون سے ذرائع آپ اختیار کر سکتے ہیں جن میں حرام کی آمیزش کم سے کم ہو اور آپ موجودہ کافرانہ نظام کے بقاء و استحکام میں کم سے کم مددگار بنیں۔ عملاً اس میں کامیابی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ اپنی معیار زندگی کو بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ جن کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوچکی ہے، یہ شرط لگاتے ہیں کہ حلال تو ملے، مگر زندگی کا معیار وہی رہے جو حرام خوری کے زمانے میں ہم نے اختیار کیا تھا۔ یہ شرط انہیں مجبوراً اسی حرام خوری میں مبتلا رکھتی ہے، حلال خوری پر آدمی قائم اسی وقت رہ سکتا ہے، جب کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرلے کہ کھانا بہرحال حلال ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ پلاؤ ہو یا چٹنی، پہنتا بہرحال حلال ہے، خواہ وہ نفیس کپڑے ہوں یا ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا گاڑھا۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال 62ھ ستمبر، اکتوبر43ء)