جھوٹ کی ہلاکت خیزیاں

281

 

 

نبی اکرمؐ کی ذات بڑی خوبیوں والی ہے، اس لیے آپ کی زندگی کو اسوۂ حسنہ اور قرآنی اخلاق کا مجسمہ قرار دیا گیا ہے، ان تمام صفات میں سے بعض ایسی صفات بھی ہیں جنہیں اہل ایمان تو کیا آپؐ کے جانی دشمن بھی تسلیم کرتے تھے، ان میں سے ایک سچائی ہے۔ جب آپ نے قریش کے سامنے دعوت ِ اسلام کا آغاز فرمایا تو پوری تاریخ میں کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملے گا کہ آپ کے مخالف، آپ کے دشمن یا کسی اور کافر نے آپ کو جھوٹا کہا ہو ،حتی کہ ابوجہل بھی آپ کی توحید کی تعلیم کے جواب میں یہ کہتا تھا کہ اے محمدؐ! میں آپ کو جھوٹا تو نہیں کہوں گا، لیکن آپ کو ہمارے دیوتاؤں کی بد دعا لگ گئی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے مخالفین آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔ اس عملی انداز سے نبیؐ نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم دنیا میں اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ ہماری آرزو ہو کہ کفار بھی اسلامی تعلیمات کو سچ اور صحیح مان لیں تو اس کے لیے مجسمہ سچائی بن جانا ہوگا۔
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: مومن کی فطرت میں اور اْس کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے، سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اس مادی عالم میں مادی چیزوں کی خوشبو اور بد بو ہوتی ہے، اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے، جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بدبو محسوس کرتے ہیں، ایسی مخصوص خوشبو اور بدبو کبھی کبھی اللہ کے وہ بندے بھی محسوس کر لیتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آجاتی ہے۔
جھوٹ کی بعض قسمیں تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں، کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن نبیؐ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا اور پھر آپؐ نے سورۂ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی: ’’بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو‘‘۔
اس آیت میں خدائے عزوجل کے طرز کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ کہنا دونوں برابر ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ’اجتنبوا‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرے کے سمجھدار افراد بھی بْرا سمجھتے ہیں، لیکن یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے اہل معاشرہ جھوٹ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں، رسول اللہؐ نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبیؐ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے پکارا کہ جلدی سے آؤ! میں تجھے کچھ دوں گی۔ نبی اکرمؐ نے فوراً میری والدہ سے پوچھا کہ تم اس بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو؟ والدہ نے کہا: میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھنا اگر اس کہنے کے بعد تم بچے کو کوئی چیز نہ دیتیں تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
اس ارشاد سے آپ نے اْمت کو ایک اہم سبق سکھایا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، اس کی بڑی اہم حکمت یہ ہے کہ ماں باپ اگر بچوں سے جھوٹ بولیں اگرچہ ان کا مقصد بہلانا ہی ہو پھر بھی بچے اس سے جھوٹ بولنا سیکھیں گے اور وہ بھی یہی سمجھیں گے کہ کبھی کبھار جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سنی سنائی باتیں لوگوں تک بغیر تحقیق کے پھیلانا بھی جھوٹ میں داخل ہے۔ معاشرے میں افواہیں بھی اسی طرح پھیلتی ہیں اور لوگ ذہنی کوفت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کا الگ گناہ ہوتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ کی روایت مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اْسے بیان کرتا پھرے‘‘۔
بیہقی میں عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ ایک دن وضو فرما رہے تھے، صحابہ کرامؓ آپ کے وضو کا پانی لے لے کر اپنے چہروں اور جسم پر مل لیتے تھے، آپؐ نے پوچھا کہ اس بات پر تمہیں کیا چیز آمادہ کرتی ہے اور تمہارے اندر کون سا ایسا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ کر رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت۔ آپ نے یہ جواب سن کر فرمایا: ’’جس شخص کی یہ خوشی ہو اور وہ یہ چاہے کہ اْسے اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت ہو اور اللہ اور اس کے رسول بھی اْس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اورجب کوئی امانت اْس کے سپرد کی جائے تو اسے ادا کر دے اور جس شخص کے ہمسائے میں رہے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے‘‘۔ سچ بولنے کی عادت انسان اپنے اندر پیدا کرلے تو یہ خوبی آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر دنیا کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور سب سے بڑا انعام تو وہ ہے جسے عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہے اور صرف سچائی ہی کو اختیار کرے تو اللہ کے نزدیک وہ سچا لکھا جاتا ہے اور اسے صدیق کا مرتبہ عطا کر دیا جاتا ہے‘‘۔