امریکی اور پاکستانی سیاست میں حیرت انگیز مماثلت

585

ہمارے دانشور امریکا اور یورپ کو ہمارے لیے آئیڈیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، بعض حضرات جو اپنے آپ کو دانشِ حاضر کا نبّاض اور ماہر سمجھتے ہیں، وقتاً فوقتاً ہمیں بتاتے رہتے ہیں: ’’مغربی دنیا یا جدید دنیا نے جمہوریت کی شکل میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیا ہے، الغرض جمہوریت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے‘‘، اگر انہیں جمہوریت کے نقائص کی طرف متوجہ کیا جائے تو فرماتے ہیں: ’’ان کا حل بھی مزید جمہوریت ہے‘‘۔ لیکن امریکا کے حالیہ انتخابات نے امریکی جمہوریت پر بھی سوالات اٹھادیے ہیں، الیکٹرول کالج اور پاپولر ووٹ میں واضح شکست کے باوجود موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حریف جوبائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے پر آسانی سے تیار نہیں ہوئے اور وہ اسے ردّ کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ امریکی جمہوریت کو دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، کہا جاتا تھا کہ اُن کے ادارے مضبوط ہیں، اقدار وروایات مستحکم ہیں، لہٰذا اُن کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے، مگر اب یہ دعویٰ بے جان معلوم ہوتا ہے۔ سی این این پر اُس کے معروف اینکر کرس کومو کا پروگرام پرائم ٹائم چل رہا تھا اور پروگرام کا ٹائٹل تھا: ’’امریکا بحران کی زَد میں‘‘، اس ٹائٹل کے نیچے بتایا جارہا تھا: ’’تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ امریکی بھوک سے دوچار ہیں، بے روزگاری ہے، ملک کووِڈ 19 کی وبا کی زَد میں ہے، لیکن امریکی کانگریس بے عملی سے دوچار ہے، مفلوج ہے، سیاسی پولرائزیشن ہے، بعض ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کانگریس اراکین نے 908ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج تجویز کیا ہے، لیکن اُس پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوپا رہا۔ یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ کورونا ویکسین کی پہلی شپمنٹ بعض ریاستوں کے طبی عملے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت اور جمہوری ادارے امریکا کے قومی مسائل کو حل کرنے سے عاری نظر آتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہماری پارلیمنٹ مفلوج ہے، بے عملی سے دوچار ہے، جو کچھ ہورہا ہے، پارلیمنٹ سے باہر ہورہا ہے۔ جوبائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں ستّر لاکھ سے زیادہ پاپولر ووٹوں کی برتری حاصل ہے اور پانچ سو اڑتیس کے الیکٹرول کالج میں دو سو بتیس کے مقابلے میں تین سو چھ کی برتری حاصل ہے، لیکن ٹرمپ اُسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کا صدارتی انتخابی نظام باقی دنیا سے بالکل مختلف ہے، اس میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ فرض کریں: ایک ریاست کے الیکٹرول ووٹ پچاس ہیں، ایک امیدوار اُس ریاست سے ڈالے گئے پچاس اعشاریہ ایک فی صد پاپولر ووٹ حاصل کرتا ہے اور دوسرا انچاس اعشاریہ نو فی صد پاپولر ووٹ حاصل کرتا ہے، ہارنے والے کے حق میں ڈالے جانے والے سارے ووٹ قدرو قیمت کے اعتبار سے زیرو ہوجاتے ہیں۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ جمہوریت ایک فریب ہے، سَراب ہے، یہ جمہور کی حکمرانی کا نام نہیں بلکہ اکثریت کی حکمرانی کا نام ہے اور اکثریت بھی بعض اوقات مذاق بن جاتی ہے، مثلاً: ماضی میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ڈیڑھ پونے دو ہزار ووٹ لینے والے قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں، حالانکہ ایک حلقۂ انتخاب میں ووٹ دینے والے اہل افراد کی تعداد تقریباً کم وبیش پانچ لاکھ ہوتی ہے، جب پانچ لاکھ ووٹر کے حلقے میں ڈیڑھ دو ہزار ووٹ لینے والا ایم این اے بن جائے تو اسے بھی شاید جمہوریت کا حُسن کہا جاتا ہوگا۔
گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکی دستوری نظام کو اگر کسی ادارے نے بچایا ہے تو وہ امریکی عدلیہ ہے، ورنہ ٹرمپ نے انتقالِ اقتدار (Transition) کے مرحلے کو ناممکن العمل بنادیا تھا، امریکا کی دنیا بھر میں رسوائی ہوتی۔ ہٹلر اور مسولینی بھی جمہوریت کے راستے سے آئے اور پھر فاشزم اور نازی ازم کے عذاب سے دنیا کو گزرنا پڑا۔ ٹرمپ بھی جمہوری طریقے سے صدر بنا، پھر اس نے امریکا کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا، جذباتی اور جنونی انداز میں فیصلے کرتا رہا، آئے دن کلیدی عہدوں پر تقرریاں ہوتیں اور پھر انہیں ایک ٹویٹ کے ذریعے برطرف کردیا جاتا، یعنی دنیا کی سپر پاور کی حکومت ٹویٹر پر چلتی رہی، امریکی کانگریس اُس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقۂ کار وضع نہ کرسکی، ریپبلکن کانگریس مین اُس کی حمایت پر اپنے آپ کو مجبور پاتے۔ ہائوس آف کامنز نے اکثریتی فیصلے کے نتیجے میں ٹرمپ کے مواخذے کی قرارداد پاس کی، لیکن اس کے باوجود ریپبلکن اکثریت پر مشتمل سینیٹ نے اُسے مواخذے سے بچالیا، ٹرمپ سرِ عام ہائوس آف کامنز کی اسپیکر نینسی پلوسی کا مذاق اڑاتا رہا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ وفاقی سطح پر امریکی سپریم کورٹ کے نو کے نو جج صاحبان ریپبلکن نامزد تھے، لیکن انہوں نے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر امریکی نظام کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اسی طرح پنسلوینیا، مشی گن اور فلوریڈا وغیرہ کی سپریم کورٹس نے بھی دانش مندی پر مبنی فیصلے کیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آئینی ادارے مضبوط ہوں، پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر دستور کی سربلندی کے لیے کھڑے ہوجائیں، تو دستور اور نظام کو بچالیا جاتا ہے، ورنہ نتائج اس کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں۔
نئے منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی کلیدی عہدوں پر تقرریوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اپنے ملک اور نظام کو نسلی عصبیت سے بچانا چاہتے ہیں، افریقن امریکن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، چنانچہ انہوں نے ایک غیر سفید فام خاتون کمالاہیرس کو اپنا نائب صدر نامزد کیا، وزیرِ دفاع بھی ایک سیاہ فام جنرل لائڈآسٹِن کو نامزد کیا ہے جو امریکن سینٹرل کمانڈ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ اسی طرح اُن کے تمام کلیدی عہدوں پر نامزد افراد ملے جلے ہیں اور ایک طرح سے پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’بلیک لائف میٹر‘‘، یعنی سیاہ فاموں کی زندگی بھی قدر وقیمت رکھتی ہے، کی تحریک دب جائے گی اور جوبائیڈن قومی وحدت کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ٹرمپ نے امریکا میں سفید فام نسلی عصبیت کو ابھارا ہے، اسی کو فاشزم کہتے ہیں، کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے برطانوی جمہوریت بھی دوچار ہے، انگریزوں نے پہلے یورپین یونین کو جوائن کیا، پھر اچانک انہیں احساس ہوا کہ اُن کا ماضی کا تفاخر یورپین یونین کے گہرے سمندر میں ڈوبا جارہا ہے، اُن کی شناخت خطرے سے دوچار ہے، اُن کی دانش جس کے کبھی چہاردانگ عالَم ڈنکے بجتے تھے، زیرو ہوچکی ہے، چنانچہ جذبات میں آکر انہوں نے یورپین یونین سے خروج کا فیصلہ کیا اور وہ اب تک اُن کے گلے میں اٹکا ہوا ہے، 31دسمبر 2020 آخری تاریخ ہے، مگر ابھی تک حتمی معاہدہ نہیں ہوسکا، الیکشن میں تو وزیرِ اعظم بورس جانسن نے جذبات کو ابھار کر بریگزٹ کے لیے کوئی واضح متبادل پروگرام دیے بغیر دوتہائی اکثریت حاصل کرلی، لیکن چھچھوندر ابھی تک گلے میں اٹکا ہوا ہے۔
ہماری سیاست گری بھی حد درجہ خوار ہے، ایک دوسرے کی تذلیل کا بازار گرم ہے، سیاست میں دُشنام کے ماہرین کی مانگ زیادہ ہے، اقدار تباہ ہوچکی ہیں، اپنی عزت بچانے سے زیادہ دوسروں کی تذلیل کر کے راحت محسوس کی جارہی ہے اور قوم کے لیے ماحصل شرمندگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر گزشتہ ڈھائی سال سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر استعمال کی جانے والی بازاری زبان، لغت اور لب ولہجے کو کتابی شکل دی جائے تو ایک نئی سیاسی لغت مرتّب ہوسکتی ہے۔
شرقِ اوسط کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین وغیرہ کے ساتھ ہمارے روابط اتنے پست درجے میں کبھی نہ تھے، جتنے کہ اب ہیں، لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ان ممالک میں روزگار کے مواقع 1970 کے عشرے سے رہے ہیں، مگر اب بساط سمٹ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ ہمارے وطنِ عزیز میں بے روزگاری کی شرح پہلے سے بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے، ایران اور شرقِ اوسط کے ممالک کا تنائو ہمارے لیے پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے، ہم کسی ایک کی بھی ناراضی کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور دوست ممالک واضح اور جانبدارانہ حمایت کے خواہاں ہیں، وزارتِ خارجہ خوبصورت تقاریر اور لفاظی کا نام نہیں ہوتا، یہاں ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولاجاتا ہے، مصلحتیں کام نہیں آتیں، جب تک آپ دوسرے کی ضرورت یا مجبوری نہیں بن جاتے، آپ کی جگہ نہیں بنتی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے: ’’ممالک کی دوستیاں اور دشمنیاں دائمی نہیں ہوتیں، مفادات پر مبنی ہوتی ہیں، مفادات کا پنڈولم گردش میں آجائے تو دوستی اوردشمنی کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں‘‘۔ سینئر کالم نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا: ’’بعض ممالک اپوزیشن کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘‘، اگر اُن کا یہ محض واہمہ نہیں ہے، بلکہ درست دعویٰ ہے اور اُن کے پاس اس کے کچھ شواہد بھی ہیں، تو یہ ہمارے ملک کے لیے اچھی علامت نہیں ہے کہ اڑوس پڑوس کے چھوٹے ممالک ہماری سیاست کے مہروں کو چلائیں، عام طور پر ایسی باتوں پر پردہ ڈالاجاتا ہے اور پسِ پردہ سفارت کاری کے ذریعے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے، مگر ٹرمپ کی طرح ہمارے محترم وزیر اعظم بھی ’’آئوٹ اسپوکن‘‘ مزاج کے حامل ہیں اور سفارتی آداب کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔