طلبہ یونینز ملک کا مستقبل پابند سلاسل – حمزہ محمد صدیقی

842

وطنِ عزیز میں ضیاالحق کے دور میں 9 فروری 1984 کو طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی، طلبہ تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا،اور اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت نے تو اس فیصلے شدید ردعمل دیتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا، اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی کو جیل اور کوڑوں کی سزا ہوئی مگر اس کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ نے اس مسئلہ کو ہر فورم پر ہر طریقہ سے اجاگر کیا۔ دسمبر 1988 میں محترمہ بینطیر بھٹو نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا اور پھر 1989 میں اسمبلی سے مختلف ایکٹس پاس کرکے مارشل لاء آرڈی نینسز کو منسوخ کرکے آئینی طور پر طلبہ یونین کا ادارہ بحال کردیا گیا۔ سن 90ء، 91ء اور 92ء میں طلبہ تنظیموں میں مختلف نوعیت کے جھگڑوں کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں یونین انتخابات ملتوی ہوتے رہے۔ 92ء میں سندھ میں آرمی آپریشن کی وجہ سے انتخابات نہ ہوسکے۔اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی مگر جمعیت نے اپنی مثبت سرگرمیاں ہر ایک جگہ پر متواتر جاری رکھیں اور طلبہ کے حقوق کی جنگ ہر ایک فورم پر لڑی۔ اس کے بعد طلبہ تنظیموں پر کڑا وقت تب آیا کہ 1جولائی 1992ء کو سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا کہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لیتے وقت طالب علم سے ”سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہ کرنے ” کا حلف نامہ لیا جائے۔ اس فیصلے کے فورا بعد اسلامی جمعیت طلبہ نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کردیا جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بینچ تشکیل دیا گیا، 10 مارچ 1993ء کو سپریم کورٹ کے بنچ نے اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل اویس قاسم کی مدعیت میں دائر کردہ پیٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے طلبہ گروپس اور یونین سرگرمیوں کو بحال کردیا جو کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مثبت کاوشوں کا ثمر تھا، البتہ یونین کے ادارے کو اس کی مکمل روح کے ساتھ بحال نہیں کیا۔ کلاسیکل یونین سرگرمیوں کی اجازت تو دے دی گئی لیکن طالب علم نمائندے کی تعلیمی ادارے کی انتظامی امور میں رسائی یا ان میں عمل دخل سے روک دیا گیا مگر اس کے باوجود جمعیت کی کوششیں جاری رہیں اور جمعیت نے اس مسئلہ کو اجاگر کرنا شروع کیا تاکہ اس پر ایکشن لیا جائے اور طلبہ یونین کو اس کی ساکھ پر بحال کیا جائے۔
طلبہ یونین کے دور کا سب سے اہم اور مثبت پہلو یہ تھا کہ طلبہ کے منتخب کردہ نمائندے براہ راست تعلیمی اداروں کی کمیٹیوں میں شامل ہوتے تھے اور طلبہ کے حقوق کی ہر بات انتظامیہ کے سامنے رکھتے، اس کے علاوہ بھی جو بھی طلبہ کو درپیش مسائل ہوتے ان کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش طلبہ کے منتخب کردہ نمائندے ہی کیا کرتے۔ طلبہ یونین کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ یہاں سے جو فرد تیار ہوتا وہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر بڑا گہرا اثر رکھتا تھا، اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوجاتیں اور وہ معاشرے کا ایک قیمتی ہیرا بن جاتا جس سے معاشرہ مستفید ہوتا۔ طلبہ یونین پر پابندی سے قبل تقریبا تمام طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں اور خود کو طلبہ مسائل کے حل کے لیے پیش کرتی رہتی تھیں مگر طلبہ کا اعتماد ہمیشہ سے اسلامی جمعیت طلبہ پر رہا، کیونکہ جمعیت کے طالب علم مضبوط کردار کے حامل ہوتے۔ طلبہ یونین پر پابندی لگتے ہی تقریبا تمام طلبہ تنظیمیں منظر عام سے غائب ہوگئیں اور جمعیت تن تنہا طلبہ حقوق کی جنگ لڑنے میدان میں کود پڑی جس پر دور آمریت میں جمعیت کو شدید مشکلات درپیش رہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب طلبہ کے حقوق کی دعوے دار تمام تنظیموں کو مل کر اس مشکل سے نکلنے کی تدبیر کرنا تھی مگر تمام تنظیموں کے ذمہ داران اپنی تنظیموں سمیت غائب ہوگئے اور طلبہ کے حقوق کو سلب ہونے دیا۔ اس تمام صورتحال میں جمعیت نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا اور طلبہ کی ہر موقع پر راہنمائی میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی۔ اس تمام کے بدلے جمعیت کو مختلف مشکل مراحل سے بھی گزرنا پڑا مگر اس سب کے باوجود جمعیت نے طلبہ کے حقوق کی جنگ ہر محاظ پر لڑی اور طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کو ہر ایک فورم پر اٹھایا اور کبھی بھی اس مطالبے سے پیچھے نہ ہٹی۔9 فروری 1984 سے لے کر آج تک اسلامی جمعیت طلبہ نے تقریبا ہر محاظ پر طلبہ کی راہنمائی کی اور جو خلا طلبہ یونین پر پابندی لگانے سے معرض وجود میں آیا تھا اس کی تلافی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی۔ جمعیت کی پہچان آج بھی اس کی مثبت تعلیم اور طلبہ دوست سرگرمیاں ہیں جس باعث طلبہ میں سب سے مقبول تنظیم کے طور پر جمعیت نے اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کیا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ ہمیشہ سے طلبہ یونین پر پابندی کی مخالف رہی ہے اور اس دور میں جب طلبہ یونین پر پابندی کے باعث مستقبل میں سیاسی قیادت کے بحران کا خطرہ تھا جمعیت نے طلبہ کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا اور ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور پھر وہی طلبہ آج مختلف سیاسی جماعتوں میں بڑے نام ہیں، یوں جمعیت نے سیاسی جماعتوں کو قیادت کے بحران سے بھی بچایا مگر اس سب کے باوجود طلبہ یونین کی اہمیت سے نظر نہیں چرائی جاسکتی ہے۔ اگر ہم آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو تقریبا ہر جماعت میں موروثیت کا غلبہ ہی نظر آتا ہے اور نااہل قیادت کا سیلاب ہے جو امڈ آیا ہے اور یہ سب ایک ہی وجہ طلبہ یونینز کے نا ہونے کی وجہ سے ہے اس باعث اب اس جانب توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ملک کا سب سے بڑا اور سب سے اہم طبقہ جس سے ملک کا مستقبل جڑا ہوا ہے وہ اپنے حقوق سے محرومی کا شکار نہ رہے۔ اگر ملک میں ہر ایک کو یونین سازی کا اختیار ہے چاہے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو تو پھر ملک کے مستقبل طلبہ کو اس سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے۔