دائمی عمل مقدم ہے!

301

قرآنِ کریم نے بھی یہ بات بیان کی ہے اور سنت نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ہاں اعمال کے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں بعض اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسروں سے زیادہ افضل اور پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں‘‘۔ (التوبہ:19-20 )
اور صحیح احادیث میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ایمان کے 70 کے لگ بھگ شعبے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ شعبہ لاالٰہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ یہ کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جائے‘‘۔ (ابوہریرہ، کتاب الایمان)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شعبے قدر و قیمت اور درجے کے لحاظ سے آپس میں مختلف ہیں اور یہ تفاوت بلاوجہ نہیں ہے بلکہ یہ کچھ معیارات اور بنیادوں پر مبنی ہے جن کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں اسی معاملے سے بحث کریں گے۔
عمل دائمی ہو!
ان معیارات میں سے ایک یہ ہے کہ عمل دائمی ہو۔ دائمی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فاعل اس پر ہمیشہ قائم رہے اور اس کی پابندی کرے۔ برخلاف اس عمل کے جسے آدمی کبھی کرے اور کبھی نہ کرے۔
اسی کے بارے میں وہ حدیث آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہوتا ہے جسے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔ (متفق علیہ)
اور شیخین نے مسروق سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہؓ سے پوچھا: رسول اللہؐ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے کہا: وہ عمل جس میں دوام ہو۔ (متفق علیہ)
سیدہ عائشہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریمؐ ان کے ہاں تشریف لائے۔ وہاں ایک عورت بیٹھی تھی۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ فلاں عورت ہے۔ اور پھر اس کی نمازوں کا ذکر کیا، مطلب یہ کہ عورت بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کرو۔ تم لوگ اتنی ہی عبادت کرو جتنی کر سکتے ہو۔ خدا کی قسم! اللہ کو کوئی اکتاہٹ نہیں ہوتی، مگر تم اکتا جائو گے۔
پھر سیدہ عائشہؓ نے کہا: نبی اکرمؐ کے ہاں محبوب ترین دین داری وہ تھی جس پر آدمی دوام اختیار کرے۔
مَہْ کا لفظ ڈانٹنے کے لیے بولا جاتا ہے اور یہاں اس بات پر ڈانٹا گیا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو عبادت کے لیے شدید مشقت میں ڈال دے اور اپنے نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ پر مجبور کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھوڑی عبادت پر دوام اختیار کیا جائے تو طاعت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کی برکت میں اضافہ ہوتا ہے، برعکس اس کے کہ زیادہ اور پرمشقت عبادت کی جائے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھوڑی عبادت پر جب دوام اختیار کیا جائے تو اس میں ترقی ہوتی جاتی ہے اور یہ اس عبادت سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے جس کی مقدار تو زیادہ ہو مگر اس میں دوام نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں لوگوں کی فطرت میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ’تھوڑا دائمی‘ بہتر ہے اس ’زیادہ‘ سے جو ’عارضی‘ ہو۔
یہی بات تھی جس کی وجہ سے نبی کریمؐ دین میں غلو اور تشدد سے روکا کرتے تھے۔ آپؐ کو خوف تھا کہ ایک دن آئے گا جب یہ لوگ اس سے اْکتا جائیں گے، یا بشری کمزوری کی وجہ سے ان کی قوت جواب دے جائے گی۔ اسی لیے وہ راستے کے درمیان میں پڑے رہ جائیں گے، پھر وہ نہ آگے جاسکیں گے اور نہ پیچھے ہٹ سکیں گے۔
اسی وجہ سے نبی کریمؐ فرماتے ہیں: تم اتنے ہی اعمال کرو جتنی تمہارے اندر طاقت ہو۔ اللہ کو کوئی اکتاہٹ نہیں ہوتی، مگر تم اْکتا جائو گے۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: تم لوگ درمیانے راستے پر چلو، اِس دین سے جو بھی الجھا ہے، مغلوب ہو کر رہا ہے۔ (احمد، حاکم، بیہقی)
اس حدیث کی وجہ بھی سیدنا بریدہؓ نے ذکر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے کسی کام سے نکلا۔ میں نے دیکھا کہ نبیؐ اسی راستے پر مجھ سے آگے آگے جارہے ہیں۔ آپؐ نے مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اس دوران ہم نے راستے میں ایک آدمی دیکھا جو کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا تھا۔ وہ نماز میں بہت طویل رکوع اور سجدے کیے جارہا تھا۔ آپؐ نے مجھ سے فرمایا: دیکھتے ہو کہ یہ دکھاوا کر رہا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ پھر اپنے ہاتھ جوڑ کر ان کو سیدھا کیا اور انہیں اوپر اٹھا کر وہ حدیث ارشاد فرمائی جو پیچھے مذکور ہے۔
سیدنا سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اپنے آپ پر سختی نہ کرو، تم سے پہلے جو لوگ ہلاکت سے دوچار ہوئے ہیں، وہ اسی وجہ سے کہ وہ اپنے آپ پر سختی کرتے تھے۔ تم ان کے گرجوں اور خانقاہوں میں ان کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو۔