کرپشن پر تبادلہ نہیں برطرفی

722

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ کرپشن اور غلط کام کرنے والے افسر کا تبادلہ کرنے کے بجائے اِسے گھر بھیج دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان کس سیاق وسباق میں ہے اس کا اندازہ تو تفصیل سامنے آنے کے بعد ہوگا اور اس وقت ہوگا جب حکومت اس معاملے میں قانون سازی کرے گی۔ قانون کی تیاری اور تدوین یہ بتائے گی کہ حکومت اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سسٹم کے بگاڑ اور خرابیوں کی ایک اہم وجہ سزا اور جزا کے رواج سے روگردانی ہے۔ جزا اور سزا فطرت کا اصول ہے اور فطرت کے اصول کو ترک کرنے کا جو نتیجہ سامنے آتا ہے ہم من حیث القوم خرابی در خرابی کی دلدل میں دھنس کر وہی نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اچھے کام کو سراہنا، ستائش اور انعام معاشرے میں اچھائی کو فروغ دیتا ہے۔ آگے بڑھنے اور کچھ غیر معمولی کر گرزنے کے جذبے کو بڑھاتا ہے۔ صحت مند مسابقت کا ماحول پیدا کرتا ہے اور سزا کا خوف برائی کو بڑھنے، پھیلنے اور ترویج پانے سے روکتا ہے۔ معاشرے میں قانون کی دھاک بٹھاتا ہے۔ غلط کام میں کشش محسوس کرنے کے رجحان کو کم کرتا ہے۔ قانون کی اطاعت اور احترام پیدا کرتا ہے۔ خوف اور لالچ کے جذبات اور رویے انسان کی گھٹی میں پڑے ہوتے ہیں۔ انسان کی زندگی کی تعمیر میں یہ جذبات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں رفتہ رفتہ اداروں، روایتوں کو جس تیزی سے زوال آیا اسی رو میں جزا اور سز ا کے تصورات بھی بہہ کر گئے۔ سسٹم کمزور ہوتا چلا گیا تو ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔ قانون نافذ کرنا اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ فعال، مضبوط اور دیانت داری کے تصور سے لبریز ادارے ہی قانون کی عملداری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد رفتہ رفتہ ہمارا قومی سفر زوال کی طرف شروع ہوا۔ مضبوط اور فعال ادارے کمزور اور دیوالیہ اور اچھی روایات سے محروم ہوتے چلے گئے۔ قانون کا خوف عوام کے دل سے نکل گیا تو اس کی جگہ جنگل کا قانون لیتا چلا گیا اور جنگل کا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ جہاں طاقتور، خود سر اور منہ زور کا قانون ہی چلتا ہے۔ اس زوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اداروں میں بدعنوانی کو رواج ملا۔ ایک مدت تک بدعنوانی چھپ چھپا کر ہوتی رہی۔ اسے معیوب سمجھا جاتا رہا، ہاتھ کی صفائی اور کمالات کا خیال رکھا جاتا رہا۔ قانون کا خوف کسی نہ کسی حد تک موجود اور سایہ فگن رہا۔ دھر لیے جانے اور پکڑے جانے کے انجانے خوف کے سائے غلط کام کرنے والوں کے سروں پر منڈلاتے رہے مگر بعد میں خوف کی یہ کمزور زنجیریں بھی ٹوٹ کر رہ گئیں اور کرپشن، غلط کاری، قانون سے انحراف معاشرے کا مجموعی رواج اور مزاج بن گئے۔ دیانت داری اور اصول پسندی پر اصرار خود کو معاشرے میں محکمے میں ادارے میں تنہا کرنے کا معاملہ بن کر رہ گیا۔ یوں اقدار اور اصولوں کی گاڑی کو یہ ریورس گیئر لگنے سے ہی کایا پلٹ گئی۔ بیوروکریسی اور حکمران کلاس نے قانون کی مٹی پلید کرنے کے لیے ایک خاموش سوشل کنٹریکٹ کر لیا۔ کبھی حکمران ملازمین کو غلط کام پر اُکسانے اور مجبور کرنے لگے تو کبھی ملازمین حکمرانوں کو غلط کاموں کے راستے دکھانے اور گُر سکھانے لگے۔ حکمران چونکہ مہمان اداکار اور عارضی کردار جبکہ بیوروکریسی مستقل، مستند اور تجربہ کار کردار ہوتی ہے اس لیے اکثر حکمران بیوروکریٹ کو اتالیق بنا لیتے ہیں۔ اس اکٹھ اور گٹھ جوڑ سے پاکستان میں بدعنوانی ایک سائنس بن گئی۔ یہاں اچھے کام کرنے والے جزا ملنا تو دور ’’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘ کے انجام کا سامنا کرنا پڑا اور بدعنوانی اور غلط کاری کرنے والوں کو سزا ملنا تو درکنار طاقت اور دولت کی بنیاد پر انعام اور معاشرتی تکریم کا مستحق جانا گیا۔ دولت اور طاقت و اختیار عزت وتکریم کا پیمانہ بن گیا یہ دولت کس ذریعے سے کمائی گئی؟ کتنے ارمانوں اور میرٹ کا خون کرکے، قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچا کر کمائی گئی یہ سوالات پہلے تو ثانوی حیثیت اختیار کر گئے بعدازاں لوح حافظہ سے مٹ کر متروک ہوگئے۔ اس طرح کے سوال اُٹھانے والوں کو پاگل اور مخبوط الحواس گردانا جانے لگا۔ سرکاری ملازم کرپشن یا غلط کام میں ملوث ہوا تو اسے او ایس ڈی کر کے کچھ نہ کرنے کی تنخواہ دی جانے لگی یا کسی دوسری جگہ تبادلہ کرکے ترقی کے نئے زینے اور زاویے تلاش کرنے پر مامور کیا گیا۔
او ایس ڈی بھی ایک دلچسپ سزا ہے جس کے دوران افسر کو کسی دوسرے دفتر میں چائے نوش کرنے اور سگریٹ کے کش لگانے اور سیاست پر طبع آزمائی کی تنخواہ ملتی ہے۔ یہ تصور شاید ان معاشروں سے چلا ہے جہاں کم از کم ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کی حاکمیت اور حکمرانی نہیں۔ جہاں ایک افسر کو اپنی کرسی اور کمرے سے نکال کر فائلوں سے دور رکھنے کو ایک سز ا سمجھا جاتا ہو۔ ہمارے ہاں تو کام نہ کرنے کی اُجرت سب سے آئیڈیل نوکری ہے۔ اس طرزِ عمل سے قانون کو معاشرے میں ایک مذاق ہی بننا تھا سو بن کر رہ گیا۔ آج سسٹم دیوالیہ اور راکھ کا ڈھیر ہے تو اس کی بنیادی وجوہات میں یہ رویے شامل ہیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن پر تبادلے کے بجائے برطرفی کی بات کی تو یہ قانون کی حکمرانی کی متروک روایتوںکی بحالی کا اشارہ ہے۔ حکومت اس سمت میں عملی پیش قدمی کر سکتی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر قانون کی عملداری اور سخت فیصلوں کی طرف لوٹے بغیر زوال پزیر معاشرے کو دوبار معمول اور عروج کے راستے پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔