جنرل(ر) اسد درانی کا مغالطہ

653

جنرل اسد درانی آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی، ملٹری انٹیلی جنس کے ڈی جی اور حسب روایت ’’ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا‘‘ کے مصداق ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب اور جرمنی میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔ 1990 سے 1993 تک وہ آئی ایس آئی کی سربراہی کی حساس ذمے داری نبھاتے رہے۔ خود ان کے بقول ’’میں کشمیر کو دیکھتا تھا‘‘ کشمیر ان کی ذمے داریوں کا اہم میدان تھا۔ کشمیر اور پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے یہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا جب کشمیر میں ایک ایسی زور دار مزاحمت چل رہی تھی جس کے بارے میں اس وقت کے گورنر کشمیر جگ موہن نے اپنی کتاب ’’مائی فروزن ٹریبولینس اِن کشمیر‘‘ جس کا ترجمہ ’’کشمیر میرا سرد جنم‘‘ کیا گیا ہے، میں لکھا ہے کہ حریت پسند کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا چکے تھے مگر یہ میں (جگ موہن) تھا جو کشمیر کو بھارت کے لیے بچا کر واپس لایا۔ جگ موہن کی یہ بات چنداں غلط بھی نہیں تھی کیونکہ مشرقی یورپ اور دیوار برلن گرنے سے متاثر ہوکر کشمیر میں نکلنے والے لاکھوں کے جلوسوں نے معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اور بھارت کا انتظامی کنٹرول دیوالیہ ہوچکا تھا۔
یہ وہی صورت حال تھی جو مشرقی یورپ، سوویت یونین اور چین میں پیدا ہو چکی تھی۔ جہاں بڑے عوامی مظاہروں نے بعد میں دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا منہ زور گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا تھا تو دوسری طر ف پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کی کوششیں بھی درپردہ جاری تھیں۔ امریکا کے اعلیٰ حکام بالخصوص سی آئی اے کے سربراہ رابرٹ گیٹس اس خطے کا دورہ کرکے کشمیریوں کی ایک الگ اور خودمختار ریاست کے امکان کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس وقت تک امریکا کا خیال تھا کہ بھارت سوویت یونین کا اتحادی ہونے کی وجہ سے اس سے خوش گوار تعلقات قائم کرے گا نہ اسے اپنے جیو اسٹرٹیجک معاملات میں زیادہ رسائی نہیں دے گا اس لیے اگر کشمیریوں کی مزاحمت کا منطقی نتیجہ ایک آزاد ریاست کے طور پر برآمد ہو تو اسے چین پر نظر رکھنے کے لیے ’’مچان‘‘ اور کمیں گاہ کے طور پر ایک معقول مقام اور میسر آسکتا ہے۔ بعد میں امریکا کا بھارت کے حوالے سے خدشہ غلط ثابت ہوا اور بھارت نے تھوڑی سے ردوکد کے بعد امریکا کے آگے ڈھیر ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں امریکا کو خطے میں خودمختار کشمیر کی صورت کسی نئی مہم جوئی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔
بھارت کی طرف سے راہ ورسم پر آمادگی کے ساتھ ہی امریکا نے مسئلہ کشمیر کو بھارت کے زاویۂ نگاہ سے حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا یعنی یہ کنٹرول لائن کو نرم کر کے بین الاقوامی سرحد بنایا جائے۔ کشمیریوں کو دونوں حصوں میں آمدو رفت کی آزادی دی جائے اور پاکستان کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قناعت کرنے پر آمادہ کیا۔ امریکا کی ضرورت ختم ہوتے ہی پاکستان نے خودمختار کشمیر کی تحریک کی روح رواں اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنے تعلقات منقطع کرنا شروع کیے اور ان تعلقات کا نقطہ اختتام 11فروری 1992 کو امان اللہ خان کی قیادت میں ہونے والا ’’کنٹرول لائن توڑ دو‘‘ لانگ مارچ بنا۔ جسے خود آزادکشمیر پولیس اور فرنٹیر کانسٹبلری نے مقبوضہ کشمیرکی جانب کنٹرول لائن کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور کئی افراد اس مڈ بھیڑ میں جاں بحق ہوئے۔
مارچ کے بعد امان اللہ خان نے ایک احتجاجی جلسے میں اس تصادم کی ذمے داری نام لے کر جنرل اسد درانی پر عائد کی۔ یہی اسد درانی اب ریٹائرمنٹ کے بعد شغل ِ تحقیق و تحریر فرمارہے ہیں۔ انہوں نے چند برس قبل را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر ’’اسپائی کرانیکلز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوا اور فوج نے بھی اس کتاب کا نوٹس لیا۔ اسد درانی کی انکوائری شروع ہوئی۔ قومی رازوں کے افشاء کا الزام لگا مگر پھر کیا ہوا خدا ہی جانتا ہے البتہ اس نوٹس اور انکوائری کے بعد جنرل درانی ایک اور کتاب کے ساتھ منظر پر اُبھرے ہیں۔ ان کی نئی کتاب کا نام ’’اونر امنگسٹ اسپائز‘‘ ہے جس میں اسامہ بن لادن کا کردار مرکزی ہے۔ ایک اور کتاب کے بعد اسد درانی پھر خبروں کا موضوع ہیں۔ اسی دوران انہوں نے بی بی سی کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر ان کی مجموعی رائے تو غیر معمولی نہیں مگر بھارت کے بارے میں وہ ایک مغالطے کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بھارت اب پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا۔ پانچ اگست 2019 کے بعد بھارت اپنے اندرونی مسائل میں اُلجھ چکا ہے اور وہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم بالاکوٹ جیسی کارروائی ہو سکتی ہے جس کے لیے آپ کو تیار رہنا ہوگا۔ جنرل اسد درانی کا خیال ہے کہ اب پاکستان کو ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
جنرل اسد درانی کا یہ کہنا کہ بھارت پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا بلکہ ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے مسائل نئے چیلنجز اور خطرات ہیں خلاف واقعہ بات ہے۔ پاکستان کے لیے کل کی طرح آج بھی اصل خطرہ بھارت ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے مسائل اسی مسئلے سے جڑے ہیں۔ سعودی عرب بھارت کے قریب جاتا ہے تو اس کا پاکستان پر اثر پڑنا فطری ہوتا ہے اسی طرح ایران بھارت کی قربت اختیار کرے تو وہ از خود پاکستان سے دوری اختیار کرتا ہے۔ بھارت اپنے ساتھ دوستی کرنے والوں کو پاکستان کے ساتھ فاصلہ رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بھارت پاکستان کو افغانستان سے گھیر رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اپنا اثر رسوخ بڑھاکر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے۔ بھارت کا یہی بڑا خطرہ پاکستان کے لیے چھوٹے چھوٹے خطرات پیداکر رہا ہے۔ ’’کب کھلا یہ راز تجھ پر انکار سے پہلے کہ انکار کے بعد‘‘ کے مصداق جنرل اسد درانی پر یہ حقیقت کب اور کس نے آشکار کی کہ بھارت اب پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا شاید اس بین الاقومی ڈونر نے یہ بات ان کے کان میں پھونکی ہو جو ان کے شغلِ تحقیق کی سرپرستی کررہا ہے؟۔