توہین رسالت کا معاملہ اور ہماری اعلیٰ عدلیہ کا کردار

528

عدالت عالیہ لاہور کے منصف اعلیٰ قاسم علی خاں نے قرار دیا ہے کہ اس امت کو مر جانا چاہیے کہ اگر سرکار دو عالمؐ کی توہین ہو اور وہ کچھ نہ کر سکے۔ انبیا کرامؐ اور صحابہ کرامؓ کی توہین آمیز پوسٹوں کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے توہین رسالتؐ اور مقدس ہستیوں کی توہین سے متعلق سماجی ذرائع ابلاغ پر پیش کی جانے والی پوسٹوں کے تدارک کے لیے بنائے گئے رولزطلب کئے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر توہین آمیز مواد کے خلاف گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے اور سائبر کرائمز رولز میں شکایات کے اندراج اور کارروائی کے طریقۂ کار کا ذکر موجود ہے جس پر عدالت عالیہ کے منصف اعلیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جو رولز جمع کرائے گئے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی سیکولر حکومت ہے جس نے یہ رولز منظور کئے ہیں، ان رولز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو شخص متاثر ہے صرف وہی شکایت درج کرا سکتا ہے۔ منصف اعلیٰ نے مزید ریمارکس دیئے کہ میں تو سرکار دو عالمؐ کی عزت کے معاملے میں بڑا واضح ہوں کہ اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر کر رکھے ہیں تو سرکار دو عالم ﷺ کا معاملہ بھی تو قانون میں شامل ہے، اس امت کو مر جانا چاہئے کہ اگر سرکار دو عالم ﷺ کی توہین ہو تو وہ کچھ کر نہ سکے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ اس معاملے پر 9 مقدمات درج کئے ہیں عدالت اس معاملے پر معاونت فراہم کرنے کے لیے مہلت دے عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی۔عدالت عالیہ کے منصف اعلیٰ نے نہایت اہم معاملہ کی طرف حکومت اور قوم کو متوجہ کیا ہے حقیقت بھی یہی ہے اور ہر ایک مسلمان اس یقین سے سرشار ہے کہ ؎
نہ جب تک کٹ مرو میں خواجۂ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
عدالت عالیہ کی یہ تنبیہ بھی بالکل بروقت، بجا اور برمحل ہے کہ حکومتی قوانین کے مطالعہ سے عموماً یہی تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ یہ قوانین کسی سچے اور پکے مسلمان کے تیار کردہ نہیں بلکہ یہ سو فیصد سیکولر ذہن کے مرتب شدہ ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے قانون تیار کرنے والوں کو آج تک کبھی اس بات کی تربیت دی ہی نہیں گئی کہ انہیں قانون سازی میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی پیروی کرنا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز انگریز حکمرانوں کے نافذ کردہ قوانین کی نقالی اور ان کے مطابق مکھی پر مکھی مارنے کے عادی ہیں انہوں نے یہ بات کبھی پیش نظر رکھی ہی نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کے دستور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہاں تمام قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہو گی۔ اگر دستور کی اس ہدایت پر عمل کیا جاتا تو آج ملکی معیشت اور بنکاری کے اداروں پر سود کا غلبہ ہوتا اور نہ ہی عدالتیں مختلف جرائم کے مرتکب افراد کو سراسر غیر اسلامی سزائیں سنا رہی ہوتیں ہماری حکومتوں اور عدالتوں کے اسی طرز عمل کا یہ ثمر ہے کہ ملک میں جرائم کی رفتار میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہر طرف لوٹ مار، رشوت اور بد دیانتی کا دور دورہ ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خاں نے اگرچہ اقتدار سنبھالا تو اس دعوے کے ساتھ تھا کہ وہ پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کے طرز پر استوار کریں گے اور دنیا آئندہ ’’ دو نہیں ایک پاکستان‘‘، کا منظر دیکھ سکے گی تاہم حقائق اس کے بالکل برعکس تصویر پیش کر رہے ہیں ان کے اقتدار کا تیسرا سال پاکستانی قوم بھگت رہی ہے مگر ’’ریاست مدینہ‘‘ کی جانب ایک قدم بھی پیش رفت کہیں دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حالات بد سے بدتر کی طرف گامزن ہیں اور اب جناب وزیر اعظم کے پے در پے یوٹرنز کے بعد حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی کو ان کے کہے پر ذرا برابر اعتماد نہیں رہا اور لوگ ان کے امن و انصاف اور ترقی و خوش حالی کے دعوے اور اعلانات سن کر زبان حال سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ؎
ترے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
عدالت عالیہ لاہور کے منصف اعلیٰ کے ارشادات عالیہ کا جہاں تک تعلق ہے تو ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی ملک کے نظام کو درست سمت میں آگے بڑھانے، اس کی نظریاتی اساس کو مضبوط بنانے اور دستور کے اسلامی تقاضوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کیا ورنہ ملک آج اس قدر برے حالات سے دو چار نہ ہوتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملک میں اس وقت توہین رسالت کی روک تھام کا جو قانون رائج ہے وہ درحقیقت وفاقی شرعی عدالت کے 30 اکتوبر 1990ء کے فیصلے کی روشنی میں اور اس فاضل عدالت کی ہدایت کے مطابق ترمیم کر کے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ محترم جج صاحبان نے مختلف مکاتب فکر کے چھ جید علمائے کرام اور فقہا کی معاونت سے صادر کیا تھا۔ ملک کی اس اعلیٰ عدالت نے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اس معاملہ کی متعدد سماعتیں کیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں پورے معاملے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے مکمل غور و غوض کے بعد یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ نبی اکرمؐ اور دوسرے تمام پیغمبروں کی شان میں گستاخی کرنے والے بدطینت شخص کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔ توہین رسالت کی روک تھام کے لیے اس قانون کا نفاذ یقیناہماری اعلیٰ عدلیہ کے لیے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے جب سے یہ قانون پاکستان میں رائج ہوا ہے دنیا بھر کی اسلام مخالف قوتیں اور ان کے پاکستان میں آلہ کار سیکولر عناصر اس قانون کے خلاف واویلا کر رہے ہیں اور اسے ختم کرانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہے اور ہر طرح کے حربے آزما رہے ہیں تاہم رسول اکرمؐ کی ذات اقدس سے بے پناہ محبت کرنے والی پاکستانی قوم کے شدید رد عمل کے باعث ان عناصر کی تمام ناپاک کوشش رائیگاں گئی ہیں تاہم اس معاملے کا ایک دوسرا اور عملی رخ اپنے اندر یقینا تشویش کا پہلو لیے ہوئے ہے کہ اس قانون کو رائج ہوئے تیس سال گزر جانے کے باوجود توہین رسالت کے کسی مجرم کو آج تک اس قانون کے مطابق سزا دے کر کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ اب تک ماتحت عدالتوں سے جتنے بھی مجرموں کو توہین رسالت میں سزائیں سنائی گئی ہیں اعلیٰ عدالتوں نے انہیں کالعدم قرار دے کر مجرموں کو رہا کر دیا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پھر ان مجرموں کو فوری طور پر یورپی ممالک کے ویزے دے کر وہاں بلا لیا جاتا ہے، جہاں توہین رسالت کے ان مجرموں کا ہیرو کی حیثیت سے استقبال کیا جاتا ہے جس کی ایک تازہ مثال آسیہ بی بی نامی ننکانہ کی خاتون کی ہے جو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کو پھانسی دلوانے کا باعث بنی۔ بیرونی دبائو کے تحت اسے بری کروا کر جیل سے رہا کیا گیا اور یہ خالصتاً ان پڑھ اور جاہل خاتون آج کل یورپ میں شاندار پروٹوکول کی مستحق قرار پا کر بہترین آرام و آسائش کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسلام اور محسن انسانیت حضرت محمدؐ سے متعلق مغربی دنیا کے بغض و عناد پر مبنی اس رویہ کا ادراک فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے حکمرانوںکی جانب سے شان رسالتؐ میں گستاخیوں کی آزادی اظہار کے پردے میں حوصلہ افزائی کے پس منظر میں زیادہ مشکل نہیں اور ان دشمنان دین سے کسی اچھائی کی توقع رکھنا بھی عبث ہے تاہم ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے یہ گزارش کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی ذاتی اور عدالت کی معمولی توہین پر کارروائی میں وہ اگر کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتے تو توہین رسالت کے معاملہ میں بھی انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہئے کیونکہ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں