حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں طلبہ یونین بحالی کیلیے مظاہرے

500
حیدر آباد : اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے طلبہ یونین پر پابندی کیخلاف پریس کلب پر دھرنے کے شرکا بینر تھامے ہوئے ہیں

حیدر آباد، میہڑ، عمرکوٹ، میرپور خاص (اسٹاف رپورٹر، نمائندگان جسارت) حیدر آباد اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سندھ کے تحت مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے اولڈ کیمپس حیدر آباد سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔ ریلی میں شامل طلبہ، طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کی عدم فراہمی کیخلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ اس موقع پر اجے کمار، منیش، عامر چانڈیو، سنجھا چنا، کامریڈ لتا ودیگر نے کہا کہ آمر ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی، اس وقت سے طلبہ اپنے حق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں لیکن ماضی اور موجودہ حکومت نے طلبہ یونین سے پابندی ختم نہیں کی جس کے باعث یونیورسٹیز میں مختلف مافیا نے اپنے راج قائم کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تعلیم کو بڑھانے کے بجائے اسے صنعت کا درجہ دے کر تعلیمی اداروں کو نجی، تجارتی بنیادوں پر استوار کردیا۔ آج سندھ کے تعلیمی ادارے تباہ حالی کا شکار ہیں۔ اساتذہ، اسٹاف، فرینیچر، ٹرانسپورٹ سمیت کوئی سہولت نہیں ہے جبکہ فیسوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے، جس کے باعث غریب کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے، طلبہ یونین بحال کی جائیں۔ میہڑ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے سرکاری اسکولز میں سہولیات کا فقدان، تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں لینے والے عمل کیخلاف پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی اپیل پر طلبہ اور سول سوسائٹی کی جانب سے دعا چوک سے نیشنل پریس کلب میہڑ تک صابر عطار، سمیر مگسی، وقار چانڈیو، منور جتوئی، سعید پنہور، شکیل عطار، عمران تنیو، کامران کھوکھر، آفتاب کھوسو، عزیر کلھوڑو اور دیگر کی قیادت میں ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں شریک شرکاء کی جانب سے طلبہ یونین بحال کرو، تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں رکھنے، بند کر کے اسکولوں کو سہولیات دو کے نعرے لگائے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ افسوس مارشل لا دور میں طلبہ یونین پر پابندی لگی۔ حکومت سرکاری اسکولوں کو سہولیات فراہم کرے۔ سندھ کے شہروں میں لائبریریاں نہیں ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ طلبہ یونین کو بحال کر کے سرکاری اسکولوں میں سہولیات فراہم کرکے تعلیمی اداروں کے اندر ہراسمنٹ سیل قائم کرکے سرکاری اسکولوں کو نجی تحویل والے عمل کو بند کیا جائے۔ عمرکوٹ میں طلبہ یونین پر پابندی کیخلاف عالمی دن پر موتی چوک سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی، جس میں سیکڑوں کی تعداد میں طالبعلموں، سیاسی، سماجی تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر بھرت مالہی، حفیظ راہموں، عامر کنبہار، گل حسن پلی، مظہر مری، وجاہت ہنگورجو، فوٹو مل، شاہد ساند، خدا بخش ساند، آفتاب بجیر اور دوسروں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت طلبہ دشمن فیصلہ دے رہی ہے، ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں، حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی لگا کر طلبہ کی آواز دبائی گئی ہے۔ حکومت کورونا کے نام پر طلبہ کو لوٹ رہی ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کے طلبہ یونین پر لاگو کی گئی پابندی ختم کی جائے تاکہ طلبہ اپنے مسائل حل کرسکیں۔ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی اپیل پر میرپور خاص پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں ممتاز آریسر، پرشوتم، محمد حسین آریسر، واجد لغاری اور دیگر نے کہا کہ طلبہ کے جو بھی جائز مطالبات ہیں انہیں تسلیم کیا جائے، جس میں طلبہ یونینز پر عائد کی جانے والی پابندیاں ختم کرکے ملکی سطح پر الیکشن کرائے جائیں۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا عمل فوری طور پر ختم کیا جائے۔ تعلیمی اداروں سے سیکورٹی فورسز کی مداخلت ختم کرکے گرفتار طالب علموں کو فوری رہا کیا جائے۔ اسکولز سمیت کیمپس میں جنسی ہراسمنٹ کے قانون کے تحت کمیٹیاں بنا کر طلبہ کو اس میں نمائندگی دی جائے۔ میرپور خاص میں مکمل یونیورسٹی، زرعی یونورسٹی اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جائے۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کر کے تعلیمی اداروں میں مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔ لاڑکانہ میں پروگریسو اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے بختاور پارک سے جناح باغ چوک تک ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں جساف، عوامی ورکرز پارٹی، پیپلز پارٹی جمہوری محاذ اور دیگر تنظیموں اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر سجاد شاہ، ساقی سولنگی، غلام مصطفی مغیری اور دیگر نے کہا کہ تعلیم کو منافع خوری کے کاروبار میں تبدیل کرکے تعلیم کو نچلی سطح پر تبدیل کیا گیا ہے۔ دوسری طرف کورونا کے باعث فیس معاف کرنے کے بجائے فیسز زیادہ وصول کی جارہی ہیں، جس کے سبب کسان طبقہ تو دور کی بات نچلی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے بھی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی سے ہماری جدوجہد کا راستہ روکا گیا ہے۔ آئے روز ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فیسز میں اضافہ، طلبہ کی ہراسمنٹ، ہاسٹلز کی کمی اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ طالبات کو قتل کرنے اور ان کو ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹر نمرتا اور نائلہ رند کی مثال سامنے ہے۔ ہم مفت، معیاری اور برابری والا تعلیمی نظام چاہتے ہیں۔