تحریک لبیک کا مطالعاتی جائزہ

1947

آج میں جو لکھ رہا ہوں، یہ سعیِ نامشکور ہے، اس سے اہلسنّت کے حلقوں میں نہ تحریک لبیک کے حامی اور محبین خوش ہوں گے اورنہ ان کے وہ معاصرین جو تحریک کے میدانِ عمل میں آنے سے بے اثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ لیکن میں کافی دنوں سے اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ یہ تاریخ کا قرض ہے جو چکا دینا چاہیے، امیرمینائی نے کہا ہے:
امیر جمع ہیں احباب، حالِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دل دوستاں رہے، نہ رہے
تحریک کا مثبت پہلو علامہ خادم حسین رضوی کی کرشماتی شخصیت ہے، وہ علمی اعتبار سے مستحکم ہیں، حفظِ قرآنِ کریم پر انہیں مکمل عبور ہے، قرآن وحدیث کے حوالہ جات ازبر ہیں، سیرت نبوی، سیرت صحابہ اور تاریخ اسلام پر انہیں عبور ہے۔ علامہ اقبال کا اردو وفارسی کلام انہیں ازبر ہے، ذہانت کے ساتھ ساتھ حافظہ اور استحضار غضب کا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اردو خطابت کے لیے کلامِ اقبال سے زیادہ اکسیر چیز کوئی اورنہیں ہے، وہ علامہ اقبال کو قلندر لاہوری کہتے ہیں، اقبال نے کہا ہے:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
علامہ خادم حسین اپنے من میں ڈوبے ہیں یا نہیں، اقبال کے من میں واقعی ڈوب چکے ہیں، بلکہ پنجابی زبان کے محاورے میں کھُب چکے ہیں۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ایڈیٹر جناب سلیم منصور خالد نے علامہ خادم حسین رضوی کا ایک ویڈیو کلپ مجھے بھیجا، کبھی کبھی اُن کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے، کہنے لگے: ’’میں نے اوریا مقبول جان سے کہا ہے: الحمراہال میں خادم حسین رضوی کی اقبال پر لیکچرز سیریز ہونی چاہیے، اس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ وطلبہ کو بلایا جائے تاکہ وہ اقبال کے پیغام اور ان کی روح میں جو امت کا درد تھا، اس کو سمجھیں، پھر انہوں نے یہ عنوانات تجویز کیے: توحید واقبال، علماء ومشایخ اور اقبال، مغرب اور اقبال، انسانیت اور اقبال، اتحادِ امت اور اقبال (عصبیتِ جاہلیہ کی نفی بھی شامل ہو)، مسلم امہ کی حالت ِ زار اور اقبال، علم اور اقبال، مولانا روم اور اقبال، قرآن اور اقبال، جہاد اور اقبال، پاکستان اور اقبال، عشقِ رسالت اور اقبال‘‘ وغیرہ۔
اقبالیات میں کسی یونیورسٹی کی اردو فیکلٹی میں نہ کوئی ان کا ہمسر ہے اور نہ شاید اقبال اکیڈمی کے مسند نشین ان کے پائے کے ہوں، واللہ اعلم بالصواب،
علامہ خادم حسین رضوی نے اقبال کو خوب سمجھا، پڑھا اور ایسا برتا ہے کہ جب وہ اپنے خطبات میں اقبال کا حوالہ دیتے ہیں تو لگتا ہے: شاید اقبال نے یہ اشعار اسی موقعے کے لیے کہے ہوں۔
ان میں خود اعتمادی غضب کی ہے، بے دھڑک اور بے لحاظ ہیں۔ ان کے ساتھ صاحبزادگی، سجادگی اور موروثیت کا کوئی سابقہ یا لاحقہ نہیں ہے، انہوں نے اپنی صلاحیت ومحنت سے اپنی دنیا آباد کی ہے، کسی کے مرہونِ منَّت نہیں ہیں، غالب نے کہا تھا:
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں کوئی شہبازِ خطابت ان کے قد کاٹھ کا نہیں ہے، ان کا ابلاغ غضب کا ہے۔ ان کو دوسروں پر ایک برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اُن کے مخاطَبین خاص وضع قطع کے لوگ نہیں ہیں، معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ ہیں، اس سے میری مراد برگر کلاس نہیں ہے، بلکہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جن کی ذہنی ساخت اپنے مذہب، تہذیب وثقافت، روایات اور اقدار کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے، بس وہ سازو آواز اور لَے چاہیے جو ان کے تارِ نفَس کو چھیڑ دے اور ان کے ضمیر خُفتہ کو بیدار کرکے اس میں کرنٹ دوڑادے۔ علامہ اقبال کے کلام میں اثر آفرینی غضب کی ہے، جب وسطی ایشیائی ریاستیں کمیونزم کے پون صدی کے تسلّط سے آزاد ہوئیں تو تاجکستان کے پرجوش نوجوانوں نے اقبال کے ان اشعار کو اپنا ترانہ بنایا تھا، اگرچہ بعد میں وہ اپنی بے تدبیری کی نذر ہوگئے:
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں، خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں، خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں، خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خیز
فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں، خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خیز
مفہوم: ’’اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھرغموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ کی مانند گرم سانسوں کی حرارت سے اٹھ، (غفلت کی) بہت گہری نیند سے اٹھ۔ اہلِ یورپ اور اُن کی دل آویزی، شیرینی وشان وشوکت کی فریاد ہے، یورپ کی چنگیزی سے ساری کائنات ویران ہے، اے حرم کے معمار! غفلت کی نیند سے اٹھ اور ایک بار پھر تعمیر ِ جہاں کے لیے کمر کس کر میدانِ عمل میں اتر آ‘‘۔
اب آتے ہیں تحریکِ لبیک کے منفی پہلوئوں کی جانب، انہیں ہم کمزور پہلوئوں سے تعبیر کرسکتے ہیں: ایک تو یہ تنظیم تھنک ٹینک یعنی مجلسِ مفکّرین سے محروم ہے، دوسری ان کی پوری اپروچ غیر سیاسی ہے، مذہبی ومسلکی رنگ بے انتہا غالب ہے، جبکہ پورے معاشرے میں سیاسی نفوذ کے لیے سیاسی اپروچ کا ہونا ضروری ہے۔ جوش وجذبہ فراواں ہے، عشقِ مصطفیؐ سے ان کو ایسی مہمیز ملتی ہے جو وقتی طور پر انسان کو فرش سے اٹھا کر عرش پہ پہنچا دیتی ہے، لیکن یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے، دیرپا نہیں ہوتی، اس کے لیے شعوری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اگر پوری طرح فقدان نہیں ہے تو فکری خوراک بہت کم ہے جو نعروں میں دب جاتی ہے، چنانچہ ایک ہی جھٹکا لگا تو سہم گئے۔ اس تنظیم میں بلاشبہ تشدّد نہیں ہے جو وصفِ مذموم ہے، تصلّب ہے جو وصفِ حمید ہے، لیکن زیادہ نعرے فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں، قلب وروح میں جذب نہیں ہوپاتے، پس سیلِ رواں کے ساتھ ٹھیرائو کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول اللہؐ کی تعلیمات میں یہ دونوں چیزیں تھیں، اس لیے غبار میں دبے ہیرے نکھر کر کندن بن جاتے، کسی نے خوب کہا ہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا
اصحابِ عزیمت کی قلت ہے، اس کے لیے تربیت درکار ہوتی ہے، ہر ایک کی صلاحیت کو پرکھ کر اُسے صحیح جگہ فِٹ کیا جاتا ہے، ہر نگینے کو تاج میں اس کی مناسب جگہ پر جَڑا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام کی جماعت میں جہاں بانی کے خوگر بھی تھے، معرکۂ حق وباطل کے سپہ سالار بھی تھے، بعض وہ تھے جن پر منصبِ عدالت کو ناز تھا، بعض مفسر تھے، بعض محدّث تھے، بعض فقیہ اور مجتہد تھے، بعض صائم النّھار اور قائم اللّیل تھے، بعض کامیاب تاجر تھے، بعض صوفیِ باصفا تھے، الغرض کوئی شعبۂ حیات ایسا نہ رہا جس کے لیے آپؐ نے رجالِ کار تیار نہ کیے ہوں۔ صلاحیتوں کو پرکھنے اور ہر ایک کے باطن میں جھانکنے کے لیے جوہری کی نظر درکار ہوتی ہے:
قدر زر، زرگر شناسد، قدر گوہر، گوہری
ہمارے ہاں دوسرے کی قیادت کو تسلیم کرنے کی روایت کم ہے اور قیادتوں کا مجموعہ کوئی مہم سر نہیں کرسکتا، بلکہ تشُّتت وافتراق کا باعث بنتا ہے، ارتقاء کے لیے وحدتِ امارت شرطِ اول ہے، مگر ہمارے ہاں اس کاچلن نہیں۔ تعدُّدِ امارات تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہے، بزرگانِ دین کے آستانے موروثیت نے ہی ویران اور بے فیض کردیے، تنظیموں اور جماعتوں میں موروثیت کے شعار کی مثال تالاب میں ٹھیرے ہوئے پانی کی سڑاند اور بساند کی سی ہے، بات تلخ ہے مگر سچ یہی ہے۔ ایک عربی شعر کا مفہومی ترجمہ درج ذیل ہے: ’’ایسی قوم فلاح نہیں پاسکتی جس میں سب لوگ ہم مرتبہ ہوں اورکسی کی سیادت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا قیادت پر جاہل مسلّط ہوجائیں تو ایسی قیادت بھی قوم کوکامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی‘‘۔
اگر علامہ خادم حسین کی جماعت ایک منظّم تنظیم میں ڈھل جائے تو نتائج بالکل مختلف ہوں۔ ایک مشکل یہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی اپنی ذات میں بے پناہ قائدانہ صلاحیت اور عزم وہمت کے باوجود جسمانی معذوری کے سبب طوفانی دوروں اور برق رفتاری سے کوئی مہم چلانے سے قاصر ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کا جو مقامِ ارتفاع تھا، اُس میں ایک ایسا پہلو مضمر تھاکہ اُس کا ذکر نہ میرے بس میں ہے اور نہ تحریک کے مفاد میں ہے۔ نیز چوراہے پر کسی سوچ بچار، دلیل ومشاورت اور حکمت ومصلحت کے بغیر علامہ پیر محمد افضل قادری کا فتویٰ پوری تنظیم پر خود کش حملہ ثابت ہوا، اس کی بروقت تلافی کی ایک ہی صورت تھی کہ علامہ صاحب موقع پر ہی اعلان کردیتے کہ یہ تنظیم کا موقف نہیں ہے، حضرت کا ذاتی موقف ہے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے، تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
تنظیم کے لیے مختلف کیڈر زکی ضرورت ہے، ہم خیال علمائے کرام اور مشایخِ عظام سے رابطے کے لیے ایک خصوصی سیل کی ضرورت ہے، نیز ایک سیل ایسے افراد کا ہونا چاہیے جو مذہبی رسوخ اور تصلّب کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی سیاست کا شعور بھی رکھتے ہوں۔ اسی طرح ہر سطح پر قیادت کے دوتین پرت ہونے چاہییںکہ کسی ناگہانی صورتِ حال میں خلا پیدا ہونے پر تنظیم جامد وساکت نہ ہوجائے، بلکہ اپنی رفتار سے چلتی رہے۔ سیاست میں رہتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بعض اوقات مشترکہ اور متفقہ مقاصد کے لیے اشتراکِ عمل کرنا پڑتا ہے، تحریکِ لبیک میں اس تجربے کا سرے سے فقدان ہے۔ اسی طرح اہم مذہبی اہداف کے لیے بھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح کا اشتراکِ عمل کرنا پڑتا ہے، ابھی تک تحریک اس شعار سے نا آشنا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے لوگوں کی تربیت اپنے امتیازات کے ساتھ کی ہے۔ چونکہ کارکنوں کی ایسی تربیت نہیں ہے، اس لیے ایسا کوئی مرحلہ آنے پر وہ بکھر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ماحول کو اپنے لیے اجنبی سمجھیں گے، بے دل ہوجائیں گے اور گھر جا بیٹھیں گے۔ پس سوشل میڈیا سے ہٹ کرکارکنوں کی طویل تربیتی نشستوں کی ضرورت ہے، یہ مبدا سے معاد تک کا سفر ہے، اس میں کٹھن راہیں اور رکاوٹیں بھی آئیں گی، خطرات بھی درپیش ہوں گے، یقینا اچھے لمحات بھی آتے ہیں، پس ’’بہترین کی امید رکھو اور بدترین کے لیے تیار رہو‘‘۔