مطالعے کا شوق انسان کی شخصیت ‘ قابلیت اور اخلاقیات میں اضافہ کرتا ہے

637

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)معاشرتی زوال پذیری کی درجنوں وجوہات گنوائی جاسکتی ہیںمگر اس بات سے بھلا کون انکار کرے گا کہ معاشرے کی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب کتاب کلچر کا ناپید ہوجانا ہے،معاشرے میں بد قسمتی سے مطالعے کا کلچر پیدا نہیں ہو سکااور اس میں تعلیمی نظام بہت بڑی رکاوٹ رہا ہے،اب انٹرنیٹ کو مطالعے میں کمی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے،اساتذہ کے پاس معلومات کی کمی کے باعث وہ طلبہ کو بھی کورس کی کتاب تک محدود رکھتے ہیں،پاکستان کا نظام تعلیم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے بلکہ رٹ کر یاد کرنے کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔ان خیالات کا اظہار وزیر برائے سیاحت و ثقافت سید سردار شاہ،انجمن ترقی اردو کے صدر واجد ضیا،کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کیا۔وزیر برائے سیاحت و ثقافت سید سردار شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے دین کا حرفِ آغاز ہی ’اقرا‘ہے، کتاب قوم کو تہذیب و ثقافت، دینی و معاشی اور سائنسی علوم سے روشناس کروانے کے ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے اورکتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا، اس دور میں جب دنیا بھر کے انسانوں کے ذہنوں کو ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعے قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے،ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی، مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی قیمتوں میں اضافہ ہے،مطالعے کا اشتیاق تو ہے، مگر کتاب اب عام اآدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے،کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خودآگاہی اورارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں، کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال ہے، معاشرتی زوال پذیری کی درجنوں وجوہات گنوائی جاسکتی ہیںمگر اس بات سے کون انکار کرے گا کہ معاشرے کی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب کتاب کلچر کا ناپید ہوجانا ہے، ہمارے تعلیمی ادارے صرف نصاب کی جانب توجہ دیتے ہیں، ہمارا نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتیں ڈگری کے حصول پر صرف کردیتا ہے، تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ ملازمت اور اچھے مستقبل پر صرف کردیتا ہے اور پھر وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتاہے جہاں اس پر ’’ عمر رفتہ کو آوازد دینا‘‘ والی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،آج ہمارا معاشرہ شدید سیاسی انتشار، لسانی اور قومیتی تقسیم، زبان اور نسل کی توجیحات بے لگام مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، سماجی جرائم کی بھرمار ، فقہی قتل و غارت گری کی انتہا پر پہنچا ہوا ہے،آج نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہورہا ہے، بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن چکا ہے حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لیے ماہرین نفسیات بچوں کے لیے مطالعے کو لازمی قرار دیتے ہیں کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں،نوجوانوں کی اصلاح کے لیے بامعنی , با مقصد کتاب کلچر کا فروغ ہماری انفرادی و اجتماعی ضرورت ہے،ہمارا نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتیں ڈگری اور نوکری کے حصول پر صرف کردیتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کا رشتہ کتاب سے جوڑنے کی کوشش کریں۔انجمن ترقی اردو کے صدر واجد ضیا کا کہنا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ مطالعہ ہی ہے،مطالعے کے بے تحاشا فوائد ہیں، اس سے نہ صرف ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتیں بھی بڑھتی ہیں،جب کوئی ناول یا کہانی پڑھتے ہیں تو اسے تصور کرتے ہیں اور اس سے تخیلاتی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے،مطالعے کے شوقین افرا دکا IQ بہت تیز ہوتا ہے۔ مشہور مقولے ہیں، Reading in Power ، Readers are Leaders۔مطالعے سے ذہنی استعداد بڑھتی ہے۔Intelletend Level میں اضافہ ہوتا ہے۔ذہن تندرست و تواناہوتا ہے،ساٹھ ستر برس قبل جب کہ وسائل بھی محدود تھے اس کے باوجود مطالعہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے کھانا پینا۔ یعنی بنیادی ضرورت۔ لوگ کہیں نہ کہیں اپنی پسند کی کتاب حاصل کرتے اور پڑھتے تھے چاہیے انہیں لائبریری جانا پڑے یا سستے بازار سے کتاب خریدنا پڑے مگر بتدریج اس رجحان میں کمی آتی گئی اور اب مطالعے کی عادت تقریباً ختم ہی ہو گئی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں،ہمارا ناقص تعلیمی نظام، جہاں بچے کو تنقیدی سوچ کے بجائے رٹا سسٹم پر ڈال دیا گیا ہے،وہ نہ بڑھنا چاہتا ہے نہ سوچتا ہے بلکہ رٹا لگانا آسان سمجھتا ہے۔Short Cuts یا Keys کی عادت۔ پورا پڑھنے سمجھنے کے بجائے اس کا تیار جواب پڑھ لینا، اساتذہ بھی بچوں کو تحقیق کی طرف راغب نہیں کرتے بلکہ جو ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے اس تک ہی محدود رکھتے ہیں،معذرت کے ساتھ اساتذہ کے پاس خود معلومات کی کمی ہوتی ہے،بچوں کو لائبریری سے کتاب لینا لازم کرنا چاہیے اور پھر وہ کتاب پڑھنے کے بعد کلاس میں اس پر بحث ہونی چاہیے پڑھنے کے مقابلے ہونے چاہییں۔نہ صرف اسکولوں بلکہ گھروں میں والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ بچوں میں مطالعے کی عادت کو یقینی بنائیں،ان کے لیے گھر میں اپنی استطاعت کے مطابق بچوں کو رسائل لگوائیں، اس پر گفتگو کریں، کہانیاں پڑھ کر سنائیں،جب تک گھر کے بڑے خود مطالعے کے عادی نہیں ہوں گے بچوں میں یہ عادت نہیں ڈالی جاسکتی، بڑوں کو بھی مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں،پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے لیے فخر کی بات ہوتی تھی کہ ہمارے پاس اتنی کتابوں کا ذخیرہ ہے، فلاں فلاں مصنف پڑھا ہو اہے، میرے گھر اتنے رسائل اور اخبارات آیا کرتے تھے وغیرہ،جو جتنا پڑھا لکھا او روسیع المطالعہ ہوتا اسے بہت معزز سمجھا جاتا تھا،مادی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوا کرتی تھی،جتنے بھی فلسفی، دانشوراور مفکر ہیں وہ سب کثیر المطالعہ ہوتے ہیں اور پہلے یہ ہی لوگ معاشرے کی پہچان ہوتے تھے Opinion Leader ہوا کرتے تھے۔ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے مطالعے کا کلچر ہی پیدا نہیں ہو سکا،تعلیمی نظام بھی بہت بڑی رکاوٹ رہا،اب انٹرنیٹ کو مطالعے میں کمی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ کتاب کا مطالعہ قدیم زمانے ہی سے انسان کی ذہنی تربیت اور نشوونما کا اہم ترین ذریعہ رہا ہے، کتاب حصولِ علم کا بہترین وسیلہ رہی ہے اور آج کے جدید دور میں بھی کتاب کے مطالعے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مطالعہ نہ صرف انسان کو تہذیب، ثقافت، معاشرتی، معاشی اور سائنسی علوم فراہم کرتا ہے بلکہ انسان کے طرز فکر اور انسانی رویوں میں مثبت تبدیلیوں میں بھی بے حد مددگار و معاون ثابت ہوتا ہے،دور حاضر میں جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں موبائل فون، ٹیبلیٹ،آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ جیسی حیرت انگیز ایجادات نے کئی APP’s (ایپس) کے ذریعے دنیا کے ہر معاشرے میں نہ صرف نوجوانوں بلکہ بچوں اور ہر عمر کے افراد کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، گرچہ ای بکس جیسی APPs بھی مطالعے کا موثر طریقہ بن سکتی ہیں لیکن ہم سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ سب آلات کسی کتاب کے مطالعے کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔کتاب اور انسان کا رشتہ اور دوستی بہت پرانی ہے اور قدرت نے بھی انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب ہی کا انتخاب کیا ہے۔اس کے برعکس، مطالعے سے دوری ہمیں بالخصوص ہماری نوجوان کو معیاری مواد لکھنے کی قابلیت سے بھی محروم کرتی جارہی ہے، مطالعے کی مدد سے قومی زبان کی ترویج کی از حد زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی، قومی زبان ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے جس کا مطالعہ ہمیں بے شمار کتابوں میں موجود علم سے باخبر رکھ سکتا ہے۔مطالعے کا شوق انسان کی شخصیت، قابلیت اور اخلاقیات میں بے پناہ اضافہ کرتاہے۔ یہ بات میں بہت کھلے دل سے کہتا ہوں کہ نوجوان نسل مطالعے سے دور ہے تو اس میں ان کی غلطی نہیں ہے، اگر ہم آج اسکول کی سطح سے ہی ان میں کتاب کے مطالعے کی عادت دوبارہ پیدا کرنا شروع کر دیں تو یہی نوجوان قوم کا بہترین اثاثہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے منیجنگ ڈائریکٹرارشد سعید حسین کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں مطالعے کی عادت کی کمی کے کئی ایک اسباب ہیںتاہم چیدہ چیدہ اسباب میں مناسب تعلیم کا فقدان،غربت،تعلیمی اداروں اور گھروں میں مطالعے کے کلچر کی کمی شامل ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود ناقص مواد / ٹی وی / وڈیو اور مطالعے کے معیاری مواد تک آسان رسائی نہ ہونا بھی مطالعے سے دوری کے اہم ترین اسباب ہیں۔ علاوہ ازیں پرانی / سیکنڈ ہینڈ کتابیں فراہم کرنے والی لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں کی عدم موجودگی بھی مطالعے سے دوری کے اسباب میں شامل ہیں، پاکستان کا نظام تعلیم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے بلکہ رٹ کر یاد کرنے کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، اس لیے امتحانات میں بھی رٹا لگانے والے طالب علم ہی اچھے مارکس حاصل کرتے ہیںلہٰذا اساتذہ اضافی مواد پڑھنے یا پڑھانے پر زور نہیں دیتے اور نہ ہی والدین کواس میں دلچسپی ہوتی ہے بلکہ ان کی دلچسپی صرف بہترین نتائج اور اچھے گریڈزمیں ہوتی ہے، جو اعلیٰ تعلیم کیلیے ان کے بچے کو کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ دلاسکیں،مطالعے کی عادت ابتدائی عمر سے ڈالی جاتی ہے،اسکول کی سطح پر لائبریریوں کو فعال کرنا چاہیے اور بچوں کے لیے ایک پیریڈ لائبریری میں کتابوں کے مطالعے کا بھی ہو ناچاہیے اور اساتذہ کو بھی مطالعے کی افادیت کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینی چاہیے، مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو بھی نجی شعبے کے ذریعے معیاری مواد کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی اقد امات کرنے چاہییں، قومی نصاب تعلیم ایس ایل او پر مبنی ہونا چاہیے اور امتحانات نصاب پر مبنی ہونے چاہییں نہ کہ درسی کتب پر تاکہ طلبہ کو مختلف کتابوں سے پڑھنے کی ترغیب ملے،ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اوراسی لیے ہم نے نوجوانوں میں مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں جن میںادبی میلوں کا انعقاد ،ارزاں نرخوں پر مختلف موضوعات پر کتابیں فراہم کرنا،اور سب سے اہم ’’اوکسفرڈ بگ ریڈ‘‘ پروگرام جس کے تحت اسکولوں کے بچے کتابیں پڑھ کر ان پر تبصرے لکھتے ہیں۔ہمیں اپنی نوجوان نسل کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔