جمہوریت کی آزادی: نیب اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات

342

اپوزیشن کے جلسوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک مہنگائی اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے نہیں ہے غور فرمائیں تو یہ تحریک صرف دو تین افراد کے گرد گھوم رہی ہے اپوزیشن کے جلسوں میں صرف ایک ہی راگ الاپا گیا ہے کہ عمران خان تم سلیکٹڈ ہو، جنرل باجوہ تم سلیکٹر ہو، جنرل فیض تم سہولت کار ہو۔ اپوزیشن بوکھلاہٹ میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش میں اپنی حد سے باہر ہوگئی ہے۔ کھلے عام آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور عدالتی نظام پر وار کیے گئے۔ آئین کے مطابق افواج پاکستان حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دیتی ہیں اور داخلی وخارجی معاملات میں حکومت کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔ اگر آج حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں تو اس میں کیا غلط کہا جارہا ہے، یہ تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی اپنے دور اقتدار میں کہتی رہی ہیں۔ 2008 میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تھی تو اُس وقت جنرل اشفاق کیانی آرمی چیف تھے تو کیا یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اُس وقت جنرل کیانی کو سلیکٹر کیوں نہیں کہا گیا؟ 2013 میں ن لیگ برسر اقتدار آتی ہے میاں صاحب تیسری بار وزیر اعظم سلیکٹ ہوتے ہیں اور جنرل راحیل شریف آرمی چیف ہوتے ہیں ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر سی پیک کا دورہ کیا جاتا ہے تو کیا اُس وقت میاں صاحب کو سلیکٹ کرنے والے سلیکٹر راحیل شریف صاحب تھے۔
مگر بد قسمتی سے کوئی بھی اپنی ان غلطیوں کو درست کرنے کی جرأت نہیں کرتا کیوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ ان کے مفادات کی سیاست ہے ان میں وہ ہمت جرأت نہیں جس کی بنیاد پر یہ ملک کے اداروں کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے ان کو بہتر موثر اصلاحات کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے سکیں۔ آج نیب نیازی گٹھ جوڑ کی صدا بلند کی جاتی ہے تو اپوزیشن یہ بتائے کہ نیب کس دور میں ایک آزاد ادارہ تھا جنرل مشرف کا پیدا کیا یہ ادارہ اپنے جنم دن کے ساتھ ہی ہائی جیک تھا جو پیپلزپارٹی ن لیگ کے دور میں بھی ہا ئی جیک رہا جس کو کبھی آزاد ادارہ بنا کر کرپشن کے خاتمے کے لیے استعمال کیا ہی نہیں گیا، یہ ادارہ ماضی میں بھی سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا اور شاید بد قسمتی سے آج بھی اس کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
2008 سے 2018 تک کے الیکشن میں دھاندلی کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں مگر ایک بھی جماعت اس ادارے کی اصلاح پر راضی نظر نہیں آتی، افواج پاکستان کو الیکشن میں سیاستدانوں کی فرمائش پر ہی بلایا جاتا ہے۔ فوج کبھی خود سے پولنگ اسٹیشنوں میں ڈیوٹی دینے کی درخواست نہیں کرتی آج جو سیاستدان فوج کو سیاست میں مداخلت کا الزام دے رہے ہیں کیا اُن کی ماضی میں یہ خواہش نہیں رہی کہ کراچی کے انتخابات میں فوج کی تعینانی کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ ماضی میں ان کو اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کا اندیشہ رہتا تھا اُس وقت فوج کو الیکشن کی حفاظت ووٹ کی عزت پر کیوں مامور کیا جاتا تھا۔
ہم یہاں وزیر اعظم عمران خان کے سامنے ایک تجویز رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنانے میں سنجیدہ ہیں، پاکستان کو کرپشن فری دیکھنا چاہتے ہیں، اس ملک پر عوام کی منتخب حکومت دیکھنا چاہتے ہیں تو صرف دو ادارے نیب اور الیکشن کمیشن کو بہتر اصلاحات کے ساتھ مضبوط موثر غیر جانبدار شفاف خود مختار اور سیاسی انتقام سے پاک بنا دیں،جس پر ایک آزاد نگران کمیٹی بنائی جائے اس میں ریاست کے تمام اداروں اور ملک کی تمام تر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایک ایک نمائندے کو کمیٹی کا رکن بنایا جائے جو یہ دیکھے کہ آیا نیب اور الیکشن کمیشن اپنے فرائض بغیر کسی دبائو کے غیر جانبدار رہتے ہوئے انجام دے رہے ہیں اگر حکومت اپوزیشن اور ریاستی ادارے مشاورت واتفاق کے ساتھ ایسی ایک کمیٹی تشکیل دے سکیں تو یقینا ملک میں غیر جانبدار شفاف مداخلت سے آزاد انتخابات ممکن بنائے جاسکتے ہیں اور ملک کو غیر جانبدار شفاف سیاسی انتقام سے پاک انداز میں رہتے ہوئے کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔