سیرت محمد رسول اللہ ﷺ ایک عالمگیر و دائمی نمونہ عمل

822

وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک آئیڈیل سیرت کا کام دے، اس میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
تاریخیّت، کاملیّت، جامعیّت اور عملیّت
تاریخیّت:
اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو حالاتِ زندگی پیش کیے جائیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند ہوں، ان کی حیثیت قصوں اور کہانیوں کی نہ ہو۔ خیالی اور مشتبہ سیرتیں خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں پیش کی جائیں، طبیعتیں ان سے دیرپا اور گہرا اثر نہیں لیتیں اور ان پر کوئی انسان اپنی عملی زندگی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔
سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہندوؤںکو ہے مگر ان میںسے کسی کو تاریخی ہونے کی عزت حاصل نہیں ہے۔ رامائن کی زندگی کے کن واقعات کو تاریخ کہہ سکتے ہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعات کس زمانے کے ہیں۔
قدیم ایرانی مجوسی مذہب کا بانی زرتشت جوآج بھی لاکھوں لوگوں کا مرکز ِعقیدت ہے، اس کے حالات ِ زندگی محققین کی متضاد آرا سے اتنے مشکوک ہیں کہ کوئی انسان ان کے بھروسے پر اپنی زندگی کی بنیاد قائم نہیںکر سکتا۔
قدیم ایشیا کے سب سے وسیع مذہب بدھ کا ہندوستان میں برہمنوں اور وسطی ایشیا میں اسلام نے خاتمہ کیا تھا۔ ایشیاے اقصیٰ میں بدھ مت کی حکومت، تہذہب اور مذہب قائم ہیں۔ لیکن یہ چیزیں بدھ کی سیرت کو تاریخ میں محفوظ نہ رکھ سکیں۔ چین کے کنفیوشس کی ہمیں بدھ سے بھی کم واقفیت ہے، حالانکہ ان کے پیروکارکروڑوں میں ہیں۔
سامی قوم کے سینکڑوں پیغمبروں کے ناموں کے سوا تاریخ کچھ نہیں بتاتی۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحق، سیدنا یعقوب، سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ علیہم السلام کی سیرتوں کے چند حصوں کے علاوہ ان کی زندگیوں کے ضروری اجزا تاریخ سے گم ہیں۔ قرآن کے سوا، یہودیوں کے اَسفار میں ان پیغمبروں کے درج حالات کی نسبت محققین کو شکوک ہیں۔ ان شکوک سے صرف ِ نظر کرنے کے باوجود ان بزرگوں کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی کی پیروی کا سامان نہیں کر سکتے۔
کاملیّت:
عزیزو! کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونۂ عمل بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام حصے روزِ روشن کی طرح دنیا کے سامنے ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی معاشرے کے لیے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آج بدھ کے پیروکار دنیا کی چوتھائی آبادی پر قابض ہیں، مگر تاریخی حیثیت سے بدھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اسے تاریخ کا درجہ دے کر بدھ کی زندگی کے ضروری اجزا تلاش کریں تو ہمیں ناکامی ہوگی۔ یہی حال زرتشت کا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (گیارہواں ایڈیشن) کے آرٹیکل زراسٹر کے مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’اس کی جائے پیدائش کی تعیین سے متعلق شہادتیں متضاد ہیں۔ زرتشت کے زمانے سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔
انبیاے سابقین میں سب سے مشہور زندگی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ موجودہ تورات کے مستند یا غیر مستند ہونے سے قطع نظر، تورات کی پانچوں کتابوں سے ہمیں ان کی زندگی کے کس قدر اجزا ملتے ہیں؟ تورات کی پانچویں کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف نہیں ہے۔ دنیا آپ کے اس سوانح نگار سے واقف نہیں ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے 120 سال عمر پائی۔ اس طویل سوانح کے ضروری اجزا ہمارے پاس کیا ہیں: پیدائش، جوانی میں ہجرت، شادی اور نبوت پھر چند لڑائیوں کے بعد120 برس کی عمر میں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوسائٹی کے عملی نمونہ کے لیے جن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخلاق و عادات اور طریقِ زندگی ہیں، اور یہی اجزا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری سے گم ہیں۔
اسلام کے سب سے قریب العہد پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔ مگر اسی پیغمبر کے حالاتِ ِزندگی تمام دوسرے مشہور بانیانِ مذاہب کے سوانح سے سب سے کم معلوم ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ کی زندگی 33 برس تھی۔ موجودہ انجیلوں کی روایتیں اوّلاً تو نامعتبر ہیں اور جو کچھ ہیں، وہ آپ کے آخری تین سالوں کی زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ پیدا ہوئے، پیدائش کے بعد مصر لائے گئے، لڑکپن میں ایک دو معجزے دکھائے، اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک تیس برس کی عمر میں بپتسمہ دیتے اور پہاڑوں اور دریائوں کے کنارے ماہی گیروں کو وعظ کہتے اور یہودیوں سے مناظرے کرتے نظر آتے ہیں، یہودی اْنہیں پکڑوا دیتے ہیں اور رومی عدالت اْنہیں سولی دے دیتی ہے۔ تیسرے دن ان کی قبر ان کی لاش سے خالی نظر آتی ہے۔ تیس برس اور کم از کم پچیس برس کا زمانہ کہاں اور کیسے گزرا؟ دنیا اس سے ناواقف ہے اور رہے گی…!
جامعیّت:
میرے دوستو! کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے تیسری ضروری شرط جامعیت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقاتِ انسانی یا ایک فردِ انسان کو اپنی ہدایت اور ادائیگی فرائض کے لیے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس آئیڈیل زندگی میں موجود ہوں۔ اللہ اور بندے اور بندوں کے مابین فرائض اور واجبات کو تسلیم اور اْنہیں ادا کرنے کا نام مذہب ہے۔ ہر مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں۔
جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے، جیسے بدھ مت اور جین مت کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبتِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تعلقاتِ قلبی، اطاعت و عبادت اور اللہ کی صفاتِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس میں کہاں تک تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا آئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک مسئلے کے علاوہ کہ خدا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟
اب حقوق العباد کو لیجیے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت وسلطنت کے بارِ گراںکو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برما کی سلطنتیں، صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان جنگل رہ جاتے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا پیغمبرانہ طرزِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں ان اَبواب سے خالی ہیں۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اْن کی سیرت اِن رشتے داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔
عملیّت:
’آئیڈیل لائف‘ کا آخری معیار عملیت ہے۔ یعنی بانیٔ مذہب جو تعلیم دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں۔
عزیزو! جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدیؐ کے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں پائی جانی چاہییں۔
تاریخیت، جامعیّت، کاملیت اور عملیت
میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اِن خصوصیات سے خالی تھیں، بلکہ اْن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں، وہ اِن خصوصیات سے خالی ہیں۔ ایسا ہونا مصلحتِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف سیدنا محمدؐ تمام اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی سیرت کو ہر حیثیت سے مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔ یہی ’ختم نبوت‘ کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔