مہنگائی کنٹرول کرنا حکومتی ترجیح ہیں

404

آج کی دنیا میں جہاں تمام ہی ممالک متعدد معاشی مسائل کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن تمام ہی حکومتیں ترجیحاً دو مسائل کو سامنے رکھتی ہیں اور اُن کے حل کے لیے سوچ بچار کرتی ہیں، منصوبہ بندی کرتی ہیں اور مختلف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تاکہ اگر یہ مسائل حل نہ بھی ہوسکیں تو کم از کم ان کی شدت کم ہوجائے کیوں کہ ان کا براہِ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے وہ مسائل ہیں مہنگائی اور بیروزگاری۔
پاکستان میں جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی کی شرح 4 سے 5 فی صد تھی۔ اس کے بعد اس میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، بعض اشیا پر نئے ٹیکس لگائے گئے یا ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔ سبسڈیز کم کردی گئیں، روپے کی قدر میں 31 فی صد کمی کی گئی، اس سے درآمدی اشیا مہنگی ہوگئیں۔ مزید یہ کہ درآمدی ڈیوٹی سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں اضافہ کیا گیا جس سے درآمد کیا جانے والا خام مال مہنگا ہوگیا۔ پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کے باعث کارخانوں اور فیکٹریوں میں تیار ہونے والی اشیا کی قیمتیں آسمان پر چلی گئیں اور مہنگائی کی شرح جنوری 2020ء میں 14.6 فی صد تک چلی گئی جو پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین ہے جب کہ اگست، ستمبر کے درمیان یہ شرح تقریباً 9 فی صد ہے جو اب دنیا کے بیش تر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح یا افراط زر کا تخمینہ ایک وفاقی سرکاری ادارہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس لگاتا ہے جس میں ایک عام شہری کے استعمال میں آنے والی تقریباً ساڑھے پانچ سو اشیا ضرورت شامل ہیں اُن میں ہر ماہ جو پچھلے ماہ اور پچھلے سال کے مقابلے میں جو ردوبدل ہوتا ہے اس کے حساب سے مہنگائی کی شرح کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن غریب اور نچلا متوسط طبقہ (Lower Middle Class) کھانے پینے کی اشیا اور بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ دنیا میں ان اشیا کے نرخوں کو زیادہ سے زیادہ مستقل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگائی انہی اشیا ضرورت میں ہوتی ہے۔
پچھلے سال گندم کی پیداوار کم ہونے کے باوجود اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کی مخالفت کے باوجود اسے برآمد کردیا گیا جب قلت ہوئی اور آٹا مہنگا ہوا تو درآمد کیا گیا آج کل پھر کچھ گندم درآمد کی گئی ہے۔ مزید کے لیے غور و فکر ہورہا ہے۔ وفاق اور پنجاب کا اس مقابلے میں اختلاف ہے چناں چہ آنے والے مہینوں میں گندم کی قلت ہوگی اور آٹا مہنگا ہوگا، اس وقت بھی ساٹھ پینسٹھ روپے فی کلو آٹا مل رہا ہے جس کی قیمت چالیس روپے فی کلو تھی، اگر گندم کے اسٹاک کے بارے میں فوری موثر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اس کی قیمت اور آگے جا سکتی ہے۔
چینی کا معاملہ لے لیں، شوگر ملز ایسوسی ایشن یا شوگر مافیا کے خلاف سرکاری سطح پر تیز و تند بیانات دیے گئے، مقدمات دائر کیے گئے، ان کے دفاتر پر چھاپا مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا گیا، چار پانچ وفاقی اداروں کو یہ کام سونپا گیا کہ ان کا ریکارڈ چیک کریں، ان کے معاملات کو دیکھیں، چینی کی پیداوار اور فروخت کا ریکارڈ سامنے لائیں، اُن کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے کہ تاخیر گنے کی کرشنگ کرنے پر جرمانہ ہوگا۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے دھمکی دی کہ اگر ہمارے خلاف کارروائی کی گئی تو چینی کی قیمت سو روپے تک پہنچ جائے گی۔ اب دو ماہ سے چینی پورے پاکستان میں سو روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔
حال ہی میں دوائیوں کی قیمت میں 265 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے اور اس اضافے کی وجہ بڑی مضحکہ خیز ہے کہ اضافہ اس لیے کیا گیا کہ عوام کو دوائیاں آسانی سے ملتی رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انڈسٹری، جو سیکٹر یا جو شعبہ اپنی مصنوعات میں قلت پیدا کردے اور وہ عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں تو انہیں مہنگا کردیا جائے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کھانے پینے کی ضروری اشیا جو رعایتی داموں دستیاب ہوتی ہیں اب ہر جگہ اُن کی قلت ہوگئی ہے، اسی طرح سرکاری اسپتالوں میں جو ادویات پہلے غریب مریضوں کو مفت مل جاتی تھیں بجٹ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ملنا بند ہوگئی ہیں جب کہ تشخیصی ٹیسٹوں کے نرخ بڑھادیے گئے ہیں۔ گیس میٹر کا رینٹ 20 روپے سے 40 روپے کردیا گیا ہے اور کمرشل صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت جس نے ریاست مدینہ کا ماڈل سامنے رکھنے کا دعویٰ کیا تھا اسے عوام کی آہوں اور بددعائوں سے بچنا چاہیے اور انہیں ریلیف دینے کی بھرپور کوشش کرنا چاہیے۔