حافظ نعیم کا سانحہ بلدیہ فیکٹری کے منصوبہ سازوں کو سزا دینے کا مطالبہ

296

کراچی(اسٹاف رپورٹر)امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مجرموں کے خلاف انسداددہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ زندہ جلنے والے 259افراد کے لواحقین اور متاثرین کی امیدوںاور توقعات کے مطابق نہیں کیا گیا ۔ لواحقین اور متاثرین کو امید تھی کہ 8سال کی تاخیر کے بعد آنے والے فیصلے میں اتنے بڑے سانحے کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کو بھی سزا دی جائے گی ۔ بھتا نہ ملنے پر فیکٹری کو جن کی ایما پر جلا دیا گیا اور جن لوگوں نے فیکٹری کو گھیر کر لوگوں کو باہر نہ آنے دیا ان کو بھی سزا ملے گی مگر فیصلے میں ایسا نہیں ہوا ۔ اس سے ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے میں انصاف فراہم کرنے کے لیے متاثرین کو مکمل انصاف دلائیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز ادارہ نور حق میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے فیصلے کے بعدلواحقین و متاثرین کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ لواحقین میں خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے جنہوں نے فیصلے کے خلاف اپنے احساسات و جذبات اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور وہ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے رونے لگے ۔انہوں نے سانحے کے منصوبہ سازوں کو بھی سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ پریس کانفرنس میں پبلک ایڈ کمیٹی کے سیکرٹری نجیب ایوبی ، پبلک ایڈ سانحہ بلدیہ کے حوالے سے قائم کمیٹی کے نگران محمد صابر ، محمد اسرار ، اکرام اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری اورعثمان فاروق ایڈووکیٹ بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ لواحقین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ لواحقین اور متاثرین کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے ۔ جرمنی کی کمپنی کی جانب سے متاثرین کے لیے دیے گئے 52کروڑ روپے بھی تاحال ان کو نہیں ملے ، اس پر سندھ حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے اور حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ رقم تمام متاثرین میں یکمشت تقسیم کی جائے اور ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو اعلانات کیے تھے وہ بھی ان کو فی الفور ملنے چاہیے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کیس 8سال تک چلتا رہا اس میں ملوث لوگوں کے نام بار بار سامنے آتے رہے وہ لوگ آج بھی منظور نظر ہیں ، مختلف پارٹیوں اور حکومتوں میں موجود ہیں اور کچھ تو واشنگ مشین میں دھل کر صاف ہوگئے ہیں ، جن 2 افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے وہ تو سامنے کے کردار تھے مگر جن کے کہنے پر ان ظالموں نے یہ کام کیا ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کرداروں کو تحفظ فراہم کیا جا تا رہا اور آج بھی وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہیں ۔ حماد صدیقی کے بارے میں کچھ لوگوں نے بار بار کہا کہ وہ بے گناہ ہیں ، عدالتی فیصلے میں بھی ان کو مفرور قرار دیا گیا ہے ۔ سانحے میں زندہ جلنے والے افراد کے لواحقین اور متاثرین آج سوال کر رہے ہیں کہ مفرور قرار دینے سے کیا مراد ہے اور ان کے بارے میں عدالت نے کیا فیصلہ کیا ہے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ ایک دلخراش واقعہ ہے اور آج بھی ہم سب دکھی ہیں آج کے فیصلے سے عدالتی نظام میں انصاف کے حصول میں غیر معمولی تاخیر کا ایک پہلو بہت نمایاں ہوا ہے ۔ اس لیے ہمارے عدالتی نظام کی بھی اصلاح ہو نی چاہیے اور لوگوں کو جلد انصاف ملنا چاہیے ۔ ملک میں قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں ۔ نجیب ایوبی نے کہا کہ آج کے فیصلے سے متاثرین اور لواحقین کو سخت مایوسی ہو ئی ہے 8سال تک فیصلے کے منتظر رہنے کے بعد بھی مظلوموں کی داد رسی نہیں ہو ئی ۔ آج یہ سب غم سے نڈھال ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ ان کو مکمل انصاف کب ملے گا ؟ محمد صابر نے کہا کہ 8سال تک میڈیا اور پھر جے آئی ٹی کی رپورٹوں میں جن لوگوں کے نام آتے رہے ان میں سے بہت سوں کو بری کر دیا گیا ۔ نچلے درجے کے مجرموں کو سزا دے دی گئی اور اوپر کے درجے کے مجرموں کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ہمارے زخم ایک بار پھر ہرے ہو گئے ہیں ۔ ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم خود سوزی پر مجبور ہو جائیں گے ۔ محمد اکرم نے کہا کہ ہم لواحقین اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے ۔ ایک سیکٹر انچارج خود اتنی بڑی واردات نہیں کر سکتا ۔ ہمارے 52کروڑ روپے بھی سندھ حکومت نے دبا رکھے ہیں ۔ محمد اسرار نے کہا کہ یہ فیصلہ 17ستمبر کو آنا تھا مگر کچھ لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے اس فیصلے میں تاخیر کی گئی ۔ حکومت کی اتحادی جماعت کو بچا لیا گیا ہے ۔ ہمیں یہاں انصاف ملے نہ ملے اللہ تعالی کی عدالت میں انصاف ضرور ملے گا ۔