موذنِ اوّل سیدنا بلالِ حبشیؓ

518

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ابوعبداللہ سیدنا بلال حبشیؓ، افریقی نسل کے اوّلین مسلمانوں میں سے ہیں جو محسن انسانیت کے دست مبارک پرمشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب میں ان کا شمار ہوا۔ آپؓ کے والدکا نام رباح اور والدہ محترمہ حمامہ تھیں۔ آپؓکے والدین بنیادی طور پرافریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ایتھوپیا کہا جاتا ہے‘ کے رہنے والے تھے۔ سیدنا بلالؓکی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی۔ امت مسلمہ میں موذن اسلام ان کی اول وآخر شناخت ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خریدکر آزاد کیا اور پھر ساری عمر جوار نبوی میں بسرکی۔ سیدنا بلالؓ کو محسن انسانیت کا اس قدر قرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی سیدنا بلالؓکی ہی ذمے داری تھی۔ آپؓ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے، محسن انسانیت نے سیدنا بلالؓ کو اوّلین موذن اسلام بنایا، انہیں اذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائیگی کا طریقہ سمجھایا اور پھر انہیں سیدالموذنین کا لقب بھی مرحمت فرمایا۔
قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، اس کے غلاموں میں سے سیدنا بلالؓ نے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کی اور دولت ایمان سے قلب مبارک منور ہوا۔ تاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا، لیکن آخرکب تک؟ نور ایمان کی روشنی نے ان کے آقا امیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور مصائب و آلام اور ابتلاء وآزمائش کا ایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبی ﷺسے بھر پور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں سیدنا بلالؓ کوکندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘ کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔ کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے، کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھرکوئی اور لیکن سیدنا بلالؓکی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والی نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزار ہوتے گئے یہاں تک کہ محسن انسانیتﷺ تک کسی مہربان نے داستان عزم وہمت روایت کرڈالی۔ محسن انسانیت ﷺنے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو روانہ کیا، آپؓ نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اور پھر ایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض سیدنا بلالؓ کو خرید کر آزاد کردیا۔
مدنی زندگی کے آغاز میں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیت ﷺکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبویﷺ کی کرنوں سے آفتاب بھی ماند پڑجاتا تھا۔ سیدنا بلالؓ فجر کی اذان سے پہلے ہی مسجد نبوی ﷺکے پڑوسی مکان، جو بنی نجار کی ایک خاتون کی ملکیت تھا، کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغاز پر اذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔ سیدنا بلالؓ کا سارا دن رسول کریمﷺ کے ساتھ ہی گزرتا تھا، خاص طور پر جب مسجد قبا جانا ہوتا تو وہاں بھی بلالؓ ہی اذان دیتے جس قبا کے مکینوں کو رسول کریم ﷺکی آمدکی اطلاع ہوجاتی تھی۔ قربت نبویﷺ کے فیض نے بلالؓ کو خازن نبویﷺ بھی بنادیا تھا چنانچہ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتا تو اس کو موذن اسلام کی طرف بھیج دیا جاتا اور سیدنا بلالؓرسول اللہﷺ کے ایما پر حسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے بلالؓ کے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ’’شین‘‘ کو ’’سین‘‘ کہہ کر ادا کرتے ہیں لیکن ان کا اعتراض بارگاہ رسالتﷺ کی جانب سے مستردکردیا گیا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺنے پوچھا: ’’بلال ایسا کیا عمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟‘‘ سیدنا بلالؓنےجواب دیاکہ جب بھی وضوکرتا ہوں دورکعت ’’تحیۃالوضو‘‘ کے ضرور پڑھ لیتا ہوں۔
ہجرت کے بعد سیدنا بلالؓ نے رفاقت نبویﷺ کا حق ادا کیا اور ہر غزوہ میں شامل رہے خاص طور پر غزوہ بدر میں اپنے سابق آقا امیہ بن خلف کو قتل کیا۔ دربار رسالت ﷺمیں اس سے بڑھ کر اورکیا پذیرائی ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پرکبار اصحاب رسول اور سرداران قریش کے درمیان سے آپؓ کو ہی حکم اذان ملا اورآپؓ نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی جو اس شہر اور اس گھر میں طلوع اسلام کے بعد پہلی اذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ ایک پسے ہوئے طبقے کے فرد کی محض تقوی کی بنیاد پر اس قدر عزت افزائی صرف دین اسلام کاہی خاصہ ہے۔
وصال نبویﷺ کا سانحہ کل اصحاب کے لیے بالعموم جبکہ سیدنا بلالؓ کے لیے بالخصوص جاں بہ لب تھا۔ مدینہ شہرکا گوشہ گوشہ آپؓ کو رسول کریم ﷺکی یاد لاتا تھا چنانچہ آپ اسلامی لشکرکے ساتھ ملک شام کی طرف سدھار گئے اور اذان دینا بندکردی۔ ایک بار جب سیدنا عمرؓ نے بیت المقدس فتح کیا تو ساتھیوں کے بے حد اسرار پر امیرالمومنینؓ نے بلالؓ سے اذان کی درخواست کی جس کو آپ نے قبول فرمایا۔ ایک بار آپ دمشق میں محو استراحت تھے کہ خواب میں زیارت رسولﷺ ہوئی، استفسارکیا کہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے! بیدار ہوتے ہی آقائے دو جہاں ﷺکے شہر کا قصد کیا اور روضۂ رسول ﷺکی زیارت کی۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمینؓ سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیا۔ حسنین کریمینؓ نے اذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آقا کے نور نظرلخت جگرکی فرمائش کو سیدنا بلالؓ جیسے عاشق رسولﷺ پوری نہ کرتے۔ جب اذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظر اٹھائی تو رسول اللہ ﷺعُنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں بلالؓکی اذان کی صدا پہنچی، مسلمان تڑپ اٹھے اور مرد و زن اپنے گھروں سے نکل نکل کر آنسوئوں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئےمقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ بلالؓ کی زندگی کی آخری اذان تھی۔
20 محرم، ہجرت کے بیسویںسال ماہتاب عشق نبوی ﷺغروب ہوگیا۔
دمشق کے محلے باب الصغیر میں آپؓ نے وفات پائی، اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دو مزارات آپؓ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اور ایک اردن کے بدر نامی گائوں میں ہے۔ آقائے دوجہاںﷺکے اعلان نبوت کے وقت بلالؓ تیس برس کے تھے، بقیہ تینتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبوی کے۔ رسول کریم کے ساتھ چلتے رہتے تھے اور جب آپ ﷺاپنے گھر تشریف لے جاتے تو بلال ؓ باہر بیٹھ جاتے۔ انتظارکے لمحات طویل ہوتے یا مختصر، آپ جب گھر سے باہر نکلتے تو بلالؓ آپ کی معیت میں پھر پیچھے پیچھے چل پڑتے۔