بحرِ اسود میں گیس کے بڑے ذخیرے کی دریافت اورترکی کاگھیراؤ

1299

مسعود ابدالی

ترکی نے بحر اسود میں گیس کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا ہے۔ تیونا ایک (Tuna#1) نامی کنواں دنیوب (Danube) بلاک میں کھودا گیا۔یہ بلاک مغربی بحراسود میں بلغاریہ اور رومانیہ کی بحری سرحدوں پر واقع ہے۔آسٹرین تیل کمپنی او ایم وی (OMV) دنیوب بلاک کے قریب رومانیہ کے پانیوں سے گیس نکال رہی ہے۔ بلغاریہ بھی اس علاقے سے پیداوار حاصل کررہا ہے۔ تیونا ترک صوبے زونگو لادک (Zonguladak) کے ساحل سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہ صوبہ لوہے کی کانوں کے لیے مشہور ہے، اسی لیے اس شہر کے فرانسیسی آبادکاروں نے اسے زنک (Zink)کا شہر قراردیا، جو بعد میں زونگولادک بن گیا۔ کامیاب تجربے کے بعد گیس کے اس میدان کو ساحلی شہر کی مناسبت سے زکریا فیلڈ (Sakarya)کا نام دیا گیا ہے۔

اس میدان سے گیس کی پیداوار 2023ء تک شروع ہوگی۔ حُسنِ اتفاق کہ یہ وہی وقت ہے جب ترک ملّت اپنی آزادی و خودمختاری کی سو سالہ سالگرہ منائے گی

اس کنویں کے بارے میں سب سے پہلے 19 اگست کو آن لائن رسالے مڈل ایسٹ آئی (MEE)نے ترک وزیر توانائی و قدرتی وسائل فاتح تمیز کے حوالے سے انکشاف کیا تھا۔ رسالے کے مطابق فاتح تمیز نے بتایا کہ رگ بردار جہاز ’فاتح‘ نے ’تیونا ایک‘ کی کھدائی 26 جون سے شروع کی تھی۔ یہاں پانی کی گہرائی 2000 میٹر ہے جبکہ کنواں سطح سمندر سے 3500 میٹر نیچے تک کھودا گیا ہے۔ یا یوں سمجھیے کہ سمندر کی تہہ سے گیس کے ذخیرے کی گہرائی 1500 میٹر کے قریب ہے۔ وزیرباتدبیر کی گفتگو کے بعد جب صحافیوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے اس بارے میں دریافت کیا تو موصوف نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ’’مثبت خبریں آرہی ہیں، دعا کرتے رہیں شاید جمعہ کے مبارک دن اعلان ہوجائے‘‘۔ غالباً اُس وقت تک آزمائش و پیمائش کا کام مکمل نہیں ہوا تھا جسے تیکنیکی اصطلاح میں Logging and Testing کہتے ہیں۔21 اگست کو نماز جمعہ کے بعد ترک صدر جب صحافیوں سے گفتگو کرنے آئے تو جناب اردوان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور وہ الحمدللہ کا ورد کررہے تھے۔ جناب اردوان حافظ اور عمدہ قاری ہیں۔ پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے انھوں نے بہت ہی خوصورت لحن میں اللہ کی حمد بیان کی اور درود کے بعد جذبات سے رندھی آواز میں کہا کہ ’’میرے مالک نے اپنی مہربانی سے ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ذخیرے کا ابتدائی تخمینہ 11300ارب مکعب فٹ یا 11.3tcfہے۔ انھوں نے دعا کے انداز میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا ’’ان شااللہ ہمارا رب ہمیں مزید نوازے گا‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں جناب اردوان نے کہا کہ اس میدان سے گیس کی پیداوار 2023ء تک شروع ہوگی۔ حُسنِ اتفاق کہ یہ وہی وقت ہے جب ترک ملّت اپنی آزادی و خودمختاری کی سو سالہ سالگرہ منائے گی۔ اس مرحلے پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ کسی بھی بلاک کے پہلے کنویں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ذخیرے اور متوقع پیداوار کے حجم کا اندازہ قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مزید کنووں کی کھدائی کے بعد جب زیرزمین چٹانوں کی ماہیت، ساخت، تہوں اور طبقات کی ترتیب وغیرہ کے بارے میں مستند معلومات حاصل ہو جائیں گی تب ہی اس میدان کا حقیقی اور حتمی تجزیہ ممکن ہوگا۔

ترک حکام نے تصدیق نہیں کی لیکن امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ کا کہنا ہے کہ دنیوب کے ساتھ شمال مغربی ساحل پر ترک شہرکیوکّے(Kiyikoy)کے قریب اتھلے پانیوں میں بھی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
اسی ضمن میں ایک اور اہم خبر یہ ہے کہ بحراسود کی اقصائے خواجہ فیلڈ(SASB)سے گیس کی پیدوار دگنی کردی گئی ہے اور اب یہاں سے یومیہ پیداوار کا حجم ڈیڑھ ارب مکعب فٹ گیس ہوگیا ہے۔ بحر اسود کے ساحلی شہر اقصا خواجہ سے متصل 100 میٹر گہرے پانیوں میں گیس کی تلاش کا کام2004ء میں کینیڈا کی ٹرلین انرجی نے ترک قومی تیل کمپنی کی شراکت سے شروع کیا۔ ابتدائی مساحت اور مطالعے پر 17کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ ترکوں پر قدرت مہربان تھی اور 2008ء میں پہلا کنواں ہی کامیاب ثابت ہوا۔ اب تک یہاں 23کنویں کھودے گئے ہیں اور یہاں کامیابی کا تناسب 81 فیصد ہے۔
ترکی تیل، گیس اور ایل این جی کی درآمد پر 50 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔2019ء میں وزارتِ قدرتی وسائل کو 2022ء تک تیل و گیس میں خودکفالت کا ہدف دیا گیا تھا، جس کے بعد سے ترکی کی قومی تیل کمپنی TPAOنے خشکی کے ساتھ اپنے سیاہ و سفید دونوں سمندروں کو کھنگالنا شروع کردیا۔ ساحلوں پر پھیلی خوبصورت سفید ریت کی مناسبت سے عرب جغرافیہ داں ترکی کے جنوب میں واقع سمندر کو بحرالابیض المتوسط کہا کرتے تھے۔ بعد میں اسے بحر روم کا نام دیا گیا۔ یورپ کے ماہرینِ جغرافیہ نے ابیض نکال پر المتوسط کے بجائے اسے Mediterraneanکہنا شروع کردیا۔

ترک وزارتِ توانائی نے گزشتہ چند سال کے دوران تیل و گیس کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ گہرے پانیوں میں کھدائی کے لیے جنوبی کوریا سے دو رگ بردار جہاز خریدے گئے، جنھیں فاتح اور یاور (Yavuz)کا نام دیا گیا۔ اسی کے ساتھ زمینی ارتعاشات کے اخراج و نمو (Seismic)کا جائزہ لینے والی دو جدید ترین کشتیاں تعمیر کی گئیں۔ ارضیات کی اصطلاح میں اس جائزے کا نام مساحتِ ارضیاتی طبعیات یا Geophysical Survey ہے۔
بحر اسود جغرافیہ کی اصطلاح میں بحر اوقیانوس کا حاشیائی یا marginal سمندر ہے جس کے بیچ میں ترکی حائل ہوگیا ہے۔ اس سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 2212 میٹر ہے۔ بحر اسود یوکرین، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی اور روس سے گھرا ہوا ہے، گویا کھلے سمندروں تک اس کی رسائی نہیں۔ تنگ سی تیس کلومیٹر طویل آبنائے باسفورس اسے بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔ مرمرا بھی خشکی سے گھرا ایک سمندر ہے جس کی اوسط گہرائی پانچ سو میٹر سے بھی کم ہے۔ بعض ماہرینِ بحریات(Oceanographers) اسے نہر قرار دیتے ہیں اور جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اسے نہر استنبول کہا گیا ہے۔ ساٹھ کلومیٹر لمبی اور سوا کلومیٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) بحیرہ مرمرا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ یعنی بحر اسود سے آنے والے جہاز باسفورس سے گزر کر بحیرہ مرمرا میں داخل ہوتے ہیں اور پھر آبنائے ڈارڈینیلس سے گزر کربحر روم آتے ہیں۔ بحر روم سے بحراوقیانوس کا راستہ مل جاتا ہے، جبکہ جنوب ایشیا کی طرف محوِ سفر جہاز نہر سوئز سے گزرکر بحر احمر سے ہوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند جاسکتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور ڈارڈینیلس تینوں ہی ترکی کی حدود میں واقع ہیں۔

ترکی کے جنوب میں واقع 9لاکھ 70 ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل بحر روم کی کھلے سمندروں تک رسائی بھی محدود ہے، یعنی ایک تو نہر سوئز کے راستے بحر احمر اور دوسرا ہسپانیہ اور مراکش کے درمیان واقع آبنائے جبل الطارق جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتی ہے۔
بحر روم اور بحر اسود کے جغرافیہ کو دیکھ کر قارئین کے لیے یہ اندازہ مشکل نہیں کہ ان دونوں اہم سمندروں اور یورپ کی کلیدی شاہراہ پر ترکی کی گرفت خاصی گہری ہے، اور یہی بات کچھ حلقوں کو پسند نہیں۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ جہازرانی و مواصلات سے زیادہ معدنیات ہیں۔ بحر اسود و بحرروم کی تہہ کے نیچے گیس کے چشمے موجزن ہیں جن پر قبضے کے لیے علاقے کے تمام ممالک اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ بحراسود کی حد بندی کسی حد تک واضح ہے، اس لیے وہاں فی الحال کوئی تنازع نہیں۔ لیکن بحرروم میں یونان اور اسرائیل اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان دونوں کو یورپی یونین اور امریکہ کی آشیرواد حاصل ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے صدراردوان کی نفرت میں جنرل السیسی اور اماراتی و سعودی شیوخ و ملوک نے بھی اپنا وزن یونان و اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ ستم ظریفی کہ ان تینوں عرب ممالک کو ترکی سے الجھا کر اسرائیل فلسطین اور لبنان کے خزانے پر بہت بے شرمی سے ہاتھ صاف کررہا ہے۔ غزہ اور لبنان کے ساحلوں کے قریب اسرائیل کی نجی تیل کمپنی دالیک اور امریکہ کی نوبل انرجی نے لیویاتن، تامر، ماری، میرا، میرین 1 اور 2 کے نام سے گیس کے میدان دریافت کیے ہیں، جبکہ کئی مقامات پر گیس کی تلاش و ترقی کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے۔ معاملہ صرف غزہ اور لبنان کے وسائل کی چوری تک محدود نہیں، جس دلیری سے مصر کی دولت پر شب خون مارا جارہا ہے وہ اس سے کہیں دردناک ہے۔

مصر کے ساحل سے متصل سمندر میں ہالینڈ کی شیل کمپنی ایک عرصے سے قسمت آزمائی کررہی تھی۔ حسنی مبارک کے دورِ نامبارک میں فوجی جنتا اور کمیشن مافیا کا گٹھ جوڑ عدم دلچسپی اور ناکامی کے باوجود شیل کے ٹھیکے کی بار بار تجدید کرکے مال بٹور رہا تھا۔
2012ء کے وسط میں اقتدار سنبھالتے ہی صدر محمد مرسی نے وزارتِ پیٹرولیم کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے اسے بحر روم میں گیس کی تلاش تیز کرنے کا ہدف دیا۔ نئی انتظامیہ نے شیل کا ٹھیکہ منسوخ کرکے دنیا بھر کی تیل کمپنیوں کو تلاش و ترقی کے کام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ بحر روم کا یہ علاقہ بے حد پُرکشش ہے، چنانچہ اطالوی کمپنی eni نے بھاری بولی لگاکر شروق بلاک میں تلاش کے حقوق اپنے نام کرلیے۔ ٹھیکہ ملتے ہی ای این آئی نے کھدائی کا آغاز کیا اور پے در پے 7 کنویں کھود کر 30 ہزار ارب مکعب فٹ گیس کا عظیم الشان ذخیرہ دریافت کرلیا جسے ’ظہر‘ کا نام دیا گیا۔ ظہر سے یومیہ پیداوار کا حجم 2 ارب 70 کروڑ مکعب فٹ ہے۔ صرف 12 ماہ بعد ہی صدر مرسی معزول کرکے عقوبت کدے کی زینت بنا دیے گئے اور کمیشن مافیا کو سونے کی ایک نئی چڑیا ہاتھ لگ گئی۔

’ظہر‘ کی ترقی اور مزید دریافت کا کام سست کردیا گیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اونے پونے گیس کی فروخت شروع ہوئی لیکن کچھ ہی ماہ بعد یہ کہہ کر معاہدہ منسوخ کردیا گیا کہ مصر قومی دولت صرف اپنے لیے استعمال کرے گا اور ظہر سے نکلنے والی گیس فروخت نہیں ہوگی۔ بظاہر یہ بڑی عمدہ بات تھی، لیکن سیاسی ہاتھیوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔ ظہر گیس کی برآمد پر پابندی کا اصل محرک لیویاتن سے نکلنے والی گیس کے لیے خریدار کی تلاش تھی۔ لبنان، ترکی، شام اور یونان اسرائیلی گیس خریدنے کے لیے تیار نہیں، اور لیبیا تیل و گیس میں خودکفیل ہے۔ اسرائیل کے پاس اس کی فروخت کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گیس کو ایل این جی میں تبدیل کرکے اسے ٹینکروں کے ذریعے یورپ برآمد کردیا جائے۔ لیکن LNGپلانٹ لگانے کا خرچ بہت زیادہ تھا، چنانچہ 2010ء میں دریافت ہونے والی یہ گیس فیلڈ گزشتہ 9 سال سے بند پڑی تھی۔
گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل اور مصر کے درمیان گیس فروخت کے ایک معاہدے (GSA)کی خبر شائع ہوئی۔ معاہدے کے تحت مصر لیویاتن سے 54 کروڑ 80 لاکھ مکعب فٹ (548mmcfd)گیس یومیہ خریدے گا۔ یہ معاہدہ 15 سال کے لیے ہے، یعنی ان پندرہ برسوں میں 3 ہزار ارب مکعب فٹ (3tcf)گیس فروخت کی جائے گی۔ اب اسرائیل، مصر اور یونان مل کر یورپ کو گیس کی فروخت کے لیے مشرقی بحرروم سے اٹلی تک گیس پائپ لائن ڈالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے کسی بھی ملک کے پاس فروخت کے لیے اضافی گیس نہیں، اور اسی لیے انقرہ کو دیوار سے لگاکر لیبیا، شمالی قبرص، لبنان اور ترکی کے ذخائر لوٹنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ بحرروم میں ترکی کی جانب سے تلاش و ترقی کے منصوبے اور لیبیا سے اسی نوعیت کے معاہدوں پر ان ممالک کو سخت اعتراض ہے۔
صدر اردوان کو اس سازش کا کافی پہلے ادراک ہوچکا تھا، چنانچہ اپنی سرحدوں سے جزیرہ قبرص تک کے علاقے کو ترکی نے مخصوص اقتصادی زون یا EEZ قرار دے دیا۔ گزشتہ برس کے آغاز میں eni نے قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش کے لیے Saipem 12000 نامی رگ بردار جہاز (Drillship)بھیجا جسے وہاں پہنچتے ہی ترک بحریہ نے گھیر لیا اور ڈبونے کی دھمکی دے کر وہاں سے چلے جانے پر مجبور کردیا۔ اس رگ بردار جہاز نے بعد میں کراچی کے قریب مشہورِ زمانہ کیکڑا ون کی کھدائی کی۔ یونان اس علاقے پر ترکی کا حق قبول نہیں کرتا اور وہ یونانی قبرص سے مل کر علاقے میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ کئی مرتبہ دونوں کی بحریہ آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن صدر اردوان کے دوٹوک رویّے کی بنا پر یونانیوں نے پسپائی اختیار کرلی۔ ترکی و یونان دونوں ہی نیٹو کے رکن ہیں۔ نیٹو سربراہ کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھا۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت تمام یورپی ممالک نے یونان کی حمایت کی۔ صدر اردوان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ترکی نیٹو چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی اقتصادی شہہ رگ سے دست بردار نہیں ہوگا۔
دوسری طرف اپنے خلاف صف بندی کے جواب میں ترکی بحر روم کے جنوبی ساحل پر شمالی افریقہ کے ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش سے قریبی تعلقات استوار کررہا ہے۔ ان تمام ممالک کو بحر روم میں اسرائیلی بحریہ کی بڑھتی ہوئی قوت پر تشویش ہے۔ جواب میں مصر اور متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں بدامنی کی آگ بھڑکا دی ہے جس سے تیونس بھی متاثر ہورہا ہے۔ نومبر میں ترکی اور لیبیا نے ’مشترکہ آبی حدود‘ کے عنوان سے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOUپر دستخط کردیے۔ استنبول میں صدر اردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیض السراج کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جن کی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ کی ذمہ داری ہوگی۔ ادھر کچھ عرصے سے قطر بھی ترک لیبیا تعاون کا غیر اعلانیہ حصہ بن چکا ہے۔
زبانی گولہ باری اور دھمکیوں کے باوجود اب تک یونان، اسرائیل یا ان کے حاشیہ برداروں کی جانب سے ترکی کے کسی جہاز یا تیل کی تلاش میں مصروف کشتیوں سے سنجیدہ قسم کی کسی چھیڑ چھاڑکا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، تاہم یورپی یونین کی جانب سے ترکی کے خلاف پابندیوں کا امکان خارج از امکان نہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کے حریف جوبائیڈن صدر اردوان کے سخت مخالف ہیں۔ ترکوں کا خیال ہے کہ 2016ء میں ترک فوج کی ناکام بغاوت کے پیچھے جوبائیڈن کا ہاتھ تھا جو اُس وقت امریکہ کے نائب صدر تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق استنبول پر حملہ کرنے والے باغی طیاروں کی ہراول ٹکڑی نے بحر روم کے ساحلی شہر انجیرلیک (Incirlik)کے امریکی اڈے سے ہی اڑان بھری تھی۔گزشتہ ہفتے جوبائیڈن نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو برسراقتدار آکر ترکی میں تبدیلیِ اقتدار (Regime Change) کی کوشش کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بائیڈن کے اس منصوبے کو پراگندہ خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوڑھ مغز اور نالائق بائیڈن ذہین و بابصیرت اردوان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اخوانیوں کو یقین ہے کہ 2013ء میں مصری جمہوریت کے خلاف شب خون میں بھی جناب بائیڈن اور صدر اوباما ملوث تھے۔
اگست کے آخری ہفتے میں بحر روم کے جزیرے Creteکے قریب یونان بحری و فضائی مشق کرے گا۔ مصر اپنی بحریہ اس مشق کے لیے بھیج رہا ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ اس کے جنگی طیارے ان مشقوں میں یونان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اس کے لیے فرانس بھی اپنے بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ ترکی نے مرعوب ہونے کے بجائے ہفتے کو بحر یونان میں بحری و فضائی فوج کی زبردست مشق کرڈالی، جس میں ایف 16طیاروں، راکٹ بردار ڈرون، سمندر سے زمین پر مارکرنے والے میزائلوں سے لیس آبدوزوں کے ساتھ ترک بحریہ کے نئے غیر مرئی تباہ کن جہازوں نے حصہ لیا۔ اسی کے ساتھ گیس کی تلاش میں مصروف سائزمک کشتی عروج رئیس کا علاقے میں قیام بھی ایک ہفتہ بڑھا دیا گیا۔ پہلے کہا گیا تھا کہ سروے 23 اگست تک مکمل کرلیا جائے گا۔ ترکی نے جزیرہ کریٹ کے اردگرد اپنی بحریہ کو چوکس کردیا ہے اور وزارتِ دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ترک تنصیبات اور سائزمک شپ سمیت اس کے اثاثوں کے خلاف مہم جوئی کی گئی تو بحرروم کوآگ کے سمندر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ ترک وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک تنازعے کے پُرامن حل کے لیے بات چیت کا خواہش مند ہے لیکن انقرہ ’اپنے سمندر‘ پر کسی کی بالادستی قبول نہیں کرے گا۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ عظیم ترکی کو اس کے ساحلوں پر محدود کردینے کا خواب دیکھنے والوں کو اپنی حقیقت بہت جلد معلوم ہوجائے گی۔ اتفاق سے اسی دوران امریکی بحریہ کا جہاز ہرشل ووڈی ولیمز (USS Hershel “Woody” Williams) بھی کریٹ کے قریب پہنچ گیا ہے، جبکہ یورپی یونین اور روسی بحریہ کے جہاز علاقے میں پہلے سے موجود ہیں۔ ہفتہ قبل علاقے میں یونانی اور ترک جہاز میں ٹکر بھی ہوچکی ہے۔ تاہم یہ ایک حادثہ تھا جس میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔ شدید کشیدگی کے ماحول میں جنگ و جدل کے سامان سے آراستہ اتنی بڑی تعداد میں عسکری اثاثوں کی موجوگی علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے اچھی خبر نہیں۔