ٹھنڈے پانی کے طبی فوائد

1164

شدید درجہ حرارت کے تمام بخاروں میں اس کا پینا سب سے زیادہ ضروری اور مفید ہے۔ شدید بخار میں اس کا ایک خاص طریقہ استعمال یہ ہے کہ مریض کو ایک دم اتنی بڑی مقدار میں ٹھندا پانی پلایا جائے کہ اس کے دانت بجنے لگیں، جسم میں کپکپی پیدا ہوجائے اور جسم کا رنگ سبز ہوجائے۔ اس تدبیر سے تو کبھی ایک دم دست، پیشاب یا پسینہ کثرت سے جاری ہوکر مریض ایک دم صحیح ہوجاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بخار کا درجہ حرارت ایک دم نیچے آجاتا ہے اور بخار کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ مریض میں درجہ ذیل حالات میں سے کوئی حالت پائی جائے تو اس کا علاج ٹھنڈے پانی سے نہ کیا جائے:

1) معدہ اور جگر ضعیف ہوں

2) معدے اور جگر میں سردی کا غلبہ ہو

3) پیٹ کے اعضاء میں ورم ہو

4) مریض کے جسم میں کہیں درد ہو

5) مریض میں خون کی کمی ہو

6) مریض کی حرارت غریزیہ ناقص ہو

7) مریض ٹھنڈا پانی پینے کا عادی نہ ہو، ایسے مریض میں ٹھنڈا پانی تشنج و ہچکی کا سبب ہوتا ہے۔

8) مریض کا جسم لاغر ہو

مندرجہ بالا حالات میں اگر مریض کو ٹھنڈے پانی پلانے کی غلطی کی جائے گی تو مریض میں ایک دوسرا بخار پہلے سے شدید پیدا ہوجئے گا اور نگلنے میں دشواریاں، رعشہ، تشنج، مثانہ، گردہ اور فوطوں کے ضعف کا خطرہ ہوگا۔

ورم کی حالت میں اگر بخار کی شدت اس درجہ کی ہو جس سے دق کا خوف ہو تو ٹھندا پانی نہین روکنا چاہئیے۔ اسی طرح وبائی بخار کے زمانے میں تندرست لوگ کثرت سے ٹھنڈے پانی کا استعمال کرتے رہیں تو امید ہے کہ وہ اس بخار میں کم مبتلا ہوں گے۔

جسم سے خون بہنے والے امراض کے علاج میں ٹھنڈا پانی کارآمد ہے اسی طرح دستوں کے امراض میں بھی۔ بے ہوشی میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دینے سے ہوش آجاتا ہے۔ ہیضے کی شدت میں ٹھنڈے پانی سے نہانا اور اُس میں ڈوب کر بیٹھنا بہت نافع ہے جس آدمی کے بدن میں زخم نہ ہو، موٹا تازہ ہو، جوان ہو اور اس کو گرمی کے موسم میں اگر ٹیٹنس ہوجائے تو ٹھنڈے پانی میں اس کو ایک دم ڈبو دینا بہت مفید ہے۔ جن لوگوں میں پتھری پیدا ہونے کا امکان ہو وہ اگر اپنے کھانے کے درمیان مین پانی پیتے رہا کریں تو پتھری نہیں ہوگی۔