بھارت میں امریکی فوج اتارنے کی تیاریاں

1280

بھارت چین تنازع پاکستان کے لیے خطرات کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام وزیر خارجہ، وزیراعظم اور فوج کے خیال میں چین نے بھارت کی پٹائی کردی ہے اور اس کا دماغ درست کر دیا ہے ۔ اتوار کے اخبارات کی خبریں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری سوچ اب بھی یہی ہے کہ چین بھارت کا دماغ درست کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ بھارت کے پاس لداخ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یعنی اسے وہاں جو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے اس لیے داخلی دبائو سے بچنے کے لیے جھوٹے فلیگ آپریشن کے ذریعے پاکستان کو علاقائی کشیدگی میں گھیر سکتا ہے لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں ہے اگر بھارت کو لداخ میں شرمندگی ہوئی ہے تو پاکستانی حکمرانوں کو بھی کشمیر میں شرمندگی کی صورتحال کا سامنا ہے لیکن وہ کسی صورت شرمندہ ہونے کو تیار نہیں اور اس حوالے سے کسی سوال کو اپنے لیے تصور ہی نہیں کر رہے۔ ان کے خیال میں اب کشمیر آزاد نہ ہونے کا سوال بھی چین سے پوچھا جائے گا۔ سب باتوں سے بڑی خبر یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کی مدد کے لیے بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ چینی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی افواج ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا میں مناسب طور پر موجود ہوں۔ اس پر طرہ یہ ہے امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کو اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر فکر لاحق ہو گئی ہے۔ کہتی ہیں کہ بن لادن پر بحث کے بجائے پاکستان اور امریکا کو افغانستان میں امن تجارت، سرمایہ کاری کے مثبت ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم نے ایک جملے میں یہ کہا کہ امریکا نے ایبٹ آباد آ کر اسامہ بن لادن کو شہید کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے دو دن آئے ہیں۔ ایک جب امریکا نے ایبٹ آباد آکر اسامہ بن لادن کو شہید کردیا۔ دوسرا امریکی ڈرون حملے تھے۔ ہمارا اتحادی پاکستان میں اسامہ کو مارنا بھی ہے اور ہم پر تنقید بھی کرتا ہے۔ حیرت ہے وزیراعظم نے پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے دو واقعات کا تذکرہ کیا۔ ممکن ہے ان کے خیال میں 16 دسمبر سقوط ڈھاکا، بھارت کے سامنے 93 ہزار فوج کا ہتھیار ڈالنا شرمساری کا باعث نہ ہو۔ ان کے نزدیک کشمیر پر بھارتی کنٹرول شرمساری کی بات نہیں ہے۔ آرمی پبلک اسکول میں 150 بچوں کا قتل شرمساری کی بات نہیں۔ روز بھارت کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں چمچہ گیری کے انداز میں اور بھارت دھتکار رہا ہوتا ہے اسے شرمساری کے واقعات میں شمار نہیں کیا جارہا۔ خیر شرم ہو تو شرمساری کا واقعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی زبان سے شہید کا لفظ کیا نکل آیا۔ امریکا کو فکر لاحق ہو گئی اور جی ایچ کیو کے سائے میں اسامہ بن لادن کے آرام سے رہنے پر تکلیف کا اظہار کردیا۔ لیکن یہ بات ایک طرف رکھی جائے تو امریکا کا بھی بھلا ہے۔ پاکستان کے کئی دشمن بھارت اور امریکا میں چھپے بیٹھے ہیں کیا پاکستان کو امریکا یہی حق دے سکتا ہے کہ پاکستان امریکا یا بھارت جا کر انہیں ہلاک کر دے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ اس لیے امریکی نائب معاون وزیر خارجہ کی بات درست ہے کہ اس موضوع پر بات نہ کی جائے ورنہ بہت سے معاملات کھلیں گے ان میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایبٹ آباد کا سارا واقعہ ہی غلط بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن مائیک پومپیو نے جو موضوع چھیڑا ہے وہ پورے جنوب مشرقی ایشیا کو ڈبونے کے لیے خطرناک علامت ہے۔ امریکا 20 برس تک افغانستان کے مفادات کا تحفظ کرتا رہا لیکن اس عرصے میں افغانستان کے مفادات کے سوا سارے کام کیے۔ اردگرد کے تمام ممالک کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان خصوصی نشانہ رہا۔ اسی طرح اب اگر بھارت کی حمایت میں چین کے مقابلے پر امریکی افواج بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں کہیں موجود ہوں گی تو اس کا مطلب خطے میں غیر ملکی قوتوں کا نیا میدان جنگ سجانے کی تیاریاں ہیں۔ میدان جنگ بھی ایسا کہ اس میں بھارت کا فائدہ ہو گا نہ چین کا نقصان بلکہ سارا نقصان کمزوروں کو ہوگا۔ شیطان صفت بھارتی قیادت چین سے پاکستان کی دوستی کی وجہ سے سارا وبال پاکستان پر ڈالے گی۔ پاکستان کو امریکیوں سے مزید پٹوائے گی۔ امریکیوں کو بھی اطمینان ہے کہ پاکستان بھارت یا جنوب مشرقی ایشیا میں طالبان کہیں نہیں اس لیے یہاں وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنے کام کر سکیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کون جانے بنگلا دیش، نیپال، کشمیر اور پاکستان ہی کے کچھ حصوں سے سخت مزاحمت شروع ہو جائے۔ لیکن ہمیں پاکستانی حکمرانوں کی طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ خطرناک حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی شکست کا ذمے دار پاکستان کو بھی سمجھتا ہے۔ وہ ضرور اپنے زخموں کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ چین کو بھی اس سے کیا غرض کہ پاکستان کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ یہ بالکل وہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے جو شام اور یمن میں ہے۔ غیر ملکی قوتیں وہاں جا کر لڑ رہی ہیں اور مقامی لوگ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ گویا یہ شارجہ میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہے یا کسی ملک میں کرکٹ کا عالمی کپ، کہ سب ٹیمیں کھیلنے پہنچ گئیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ایسی رہی ہے کہ پاکستان کو بالاخر نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ آج کل ہمارے حکمران چین کی وکالت میں بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور جب میدان سجے گا تو پاکستان چین ہی کا ساتھی تصور کیا جائے گا۔ پھر ہمارے وزیراعظم (اگر رہے تو) کہہ رہے ہوں گے کہ بھارت کے لیے شرمساری کا مقام ہے کہ وہ امریکا کی مدد سے ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات استعمال کرتے ہوئے بھارت چین تنازع ختم کرائے اور امریکا کو جنوب مشرقی ایشیا یا بھارت میں اپنی افواج اتارنے کا موقع نہ دے۔ ورنہ بھارت، چین، امریکا لڑائی کا سارا نقصان پاکستان کو ہوگا۔