کھانے کا ایک ادب محمد رضی الاسلام ندوی

303

مقداد بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
کسی آدمی نے پیٹ سے برابر تن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے)۔ (ترمذی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)
علامہ البانیؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پْری سے روکا گیا ہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیارخوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائے۔
مذکورہ بالا حدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔