‘پائلٹس اور ایئرٹریفک کنٹرولر نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا’

442

وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹس اور طیارہ مکمل طور پر فٹ تھے، پائلٹس اور ایئرٹریفک کنٹرولر نے مروجہ  طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔

قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طیارے کے پائلٹس طبی طور پر جہاز اڑانے کے لیے فٹ تھے، پائلٹس نے دوران پرواز کسی قسم کی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی،ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیارہ پرواز کے لیے سو فیصد فٹ تھا کنٹرولر نے3بارپائلٹس کی توجہ مبذول کروائی کہ لینڈنگ نہ کریں ایک چکر اورلگائیں مگر  پائلٹس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔

انہوں نے کہا کہ لینڈنگ گیئر کے بغیر جہاز تین بار روے سے ٹچ ہوا،جس سے انجن کو نقصان پہنچا، جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجنوں کو کافی نقصان ہوچکا تھاابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق پائلٹ اوراے ٹی سی نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا، جہاز مکمل فٹ اورآٹو لینڈنگ پرلگا ہوا تھا، بدقسمتی سے پائلٹ طیارہ کو آٹو لینڈنگ سے نکال کر مینوئل لینڈنگ پر لایا ، ایئرٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو پائلٹس اور معاون پائلٹس نے نظر انداز کیا اس لیے حادثے کی ذمے داری کریو کیبن اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کی بھی بنتی ہے جو غلطی طیارہ حادثے میں پائلٹ سے ہوئی وہی غلطی گلگت طیارہ واقعے میں ہوئی،طیارہ حادثے کی مکمل رپورٹ تیار ہونے میں ایک سال کا وقت لگے گا۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ بدقسمتی سےیہ طیارہ حادثہ پہلا واقعہ نہیں،72 سالوں میں 12 واقعات ہوئے ہیں،ان 12 واقعات کی بروقت انکوائری ہوئی اورنہ رپورٹ سامنے آئی، حادثے کے بعد یہ بورڈ کراچی پہنچا اور اس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا ، طیارہ حادثے میں 97 افراد شہید ہوئے،اسی رات ایک ٹیم تشکیل دی جو سینئر ترین افراد پرمشتمل بورڈ تھا

ان12 واقعات کے ذمے داروں کا تعین اورسزا کے بارے میں کوئی نہیں جان سکا۔

وزیر ہوابازی کا کہنا تھا کہ آج تک عوام اور مرنے والوں کے لواحقین میں تشنگی رہی کہ ان واقعات کے ذمے دار کون تھے؟سابق تمام حادثات کی بروقت انکوائری ہوئی نہ رپورٹ سامنے آئی اورنہ حقائق عوام تک پہنچے ،بدقسمتی سے بھرتی کرتے وقت میرٹ کو نظر انداز کیا گیا، بد قسمتی سے پی آئی اے کے چار پائلٹس کی ڈگریاں جعلی نکلیں جب کہ چالیس فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔

غلام سرور کا کہنا تھا کہ سابق تمام حادثات کی بروقت انکوائری ہوئی نہ رپورٹ سامنے آئی اورنہ حقائق عوام تک پہنچے ،ایک عوام رائے سامنے آئی کہ پائلٹس کو بھی انکوائری کمیٹی کا حصہ بنایا جائے، 2 پائلٹس کوکمیٹی کا حصہ بنایا،مکمل انکوائری رپورٹ میں تمام ترمعاوضہ جات ، محرکات اور حقائق سامنے لائیں گے، پائلٹس کے جعلی لائسنس پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے، مکمل رپورٹ بھی اس ایوان کی سامنے پیش کی جائے گی ، پائلٹس کو بھی سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا جاتا ہے، جودکھ کی بات ہے،  پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کرنی ہے اور  ذمے داروں کے خلاف بلا تفریق ایکشن ہوگا ہمارا عزم ہے کہ پی آئی اے کو دوبارہ سے فعال بنایا جائے گا۔