بلدیاتی اداروں کو وسائل اور اختیارات ملنے پر18ویں ترمیم کی حمایت کریں گے، جماعت اسلامی

527
وزیراعلیٰ سندھ کی طلب کردہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کے بعد جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر ممتاز حسین سہتو اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کے موقف کی وضاحت کے لیے پریس کانفرنس کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر ممتاز حسین سہتو اورجماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے حکومت سندھ کی کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کے بعد ادارہ نور حق میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں حکومت کی کانفرنس کے حوالے سے جماعت اسلامی کے موقف کی وضاحت کی اور بتایا کہ ہم نے اپنی گزارشات و ہاں تحریری طور پر بھی پیش کیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈکے حوالے سے ہم نے واضح طور پر کہا کہ سندھ حکومت کو اس کاجائز حق ضرور ملنا چاہیے۔18ویں ترمیم کی حمایت ہم اس صورت میں کریں گے جب سندھ کے شہروں اور بلدیاتی اداروں کو بھی ان کے حقوق اور اختیارات دیے جائیں گے۔ سندھ کا 90فیصد ریونیو کراچی سے فراہم ہو تا ہے۔ ایس بی سی اے، ایل ڈی اے ، ایم ڈی اے اور کے ڈی اے کو کراچی کے تحت ہو نا چاہیے۔این ایف سی اور18ویں ترمیم پر وفاق بھی سیاست نہ کرے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ایک اہم اور بڑا مسئلہ اسٹیل مل کی نجکاری اور ملازمین کی جبری برطرفی کا تھا ہم نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ خود عدالت سے رجوع کرے، وفاقی کابینہ اور ای سی سی کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر دستوری ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کا غلط استعمال کسی طرح بھی درست نہیں۔ ہم عدالت عظمیٰ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اسٹیل مل کے معاملے کو ٹیکنیکل، آئینی و قانونی، انسانی ہمدردی اور ادارے کی حساس اور اسٹریٹجک نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھے، چونکہ پاکستان اسٹیل ایک دفاعی نوعیت کا حامل ادارہ بھی ہے اس لیے افواج پاکستان اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اسٹیل مل کی تباہی و بربادی کی ذمے داری ادارے کے ملازمین پر نہیں بلکہ حکومتوں اور حکمران پارٹیوں پر عاید ہو تی ہے۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف آج اسٹیل مل کی نجکاری کی حمایت کر رہے ہیں اور قومی اداروں کو جنازے کہہ رہے ہیں ان ہی کے دور ِ حکومت میں اسٹیل مل کو گیس کی فراہمی بند کر دی گئی تھی جس کے بعد ادارے کا چلنا محال ہوگیا جبکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے الیکٹرک کو گیس کی سپلائی بحال کرانے کے لیے خود کراچی آئے تھے اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔ کے الیکٹرک کو موجودہ حکومت نے بھی اربوں روپے کی سبسڈی دی ہے لیکن اسٹیل مل کو فروخت کرنے اور ہزاروں ملازمین کو بے روزگار کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں جبکہ عمران خان اور اسد عمر خود اسے چلانے کا وعدہ کرتے تھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس امر کو بھی دیکھا جائے کہ 2007ء میں 16ارب روپے کا منافع دینے والا ادارہ صرف 2سال بعد 2009ء میں 10ارب روپے کے خسارے میں کیوں چلا گیا؟ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ آج بھی ہماری پالیسیاں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنائی جا رہی ہیں۔ بجٹ بھی ان ہی کی مرضی کے مطابق بنایا جارہاہے۔ عالمی ساہو کار اب ہمارے تعلیمی نظام اور نصاب کے اندر بھی داخل ہو رہے ہیں۔ نجکاری اور آئی ایم ایف کی مداخلت پر حکمران طبقہ ہمیشہ ایک پیج پر ہو تا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کورونا کے مسئلے پر بھی ہم نے حکومت سندھ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر صرف عوام کو ذمے دار نہیں ٹھیرا سکتی۔ عوام احتیاطی تدابیر کا ضرور خیال کریں لیکن ان کا خیال کون کرے گا، جان لیوا مرض کی وبا میں حکومت نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ آج اسپتالوں کی حالت ِ زار سب کے سامنے ہے، ڈاکٹروں کو ضروری سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد تاحال حکومتی اعلانات کے باوجود نا کافی ہے۔ کورونا کے مریضوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کے علاوہ دل، جگر، گردے، شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو بھی علاج معالجے کی سہولت میسر نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے صرف اعلانات اور خوش نما بیانات سے صحت کے شعبے کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت اسپتالوں کی حالت کو بہتر کرے اور سہولیات بڑھائے۔ انہوں نے کہا کہ نجی اسکولز بھی بڑے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں، بلڈنگز کے کرائے اور اساتذہ کی تنخواہیں دینا مشکل ہو گئی ہیں۔ سندھ حکومت کورونا بجٹ میں سے نجی اسکولوں کے لیے بھی ریلیف پیکج کا اعلان کرے۔ قبل ازیں پریس کانفرنس میں ممتاز حسین سہتو نے کہا کہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں ہم نے دو ٹوک انداز میں یہ موقف اختیار کیا کہ کورونا کے مسئلے پر سندھ حکومت کے اقدامات ناقص اور نا مکمل ہو نے کی وجہ سے عوام کو ریلیف کے بجائے مشکلات میں اضافہ ہوا۔ 20،25سال سے سندھ پر حکومت کرنے کے باوجود اس نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا اور سندھ کے دارالخلافے کراچی کی حالت ِ زار سب کے سامنے ہے۔ کراچی کو ایک ماڈل سٹی کے طور پر اختیارات اور وسائل دیے جائیں اور اسی طرح سندھ کے دیگر شہروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کا حصہ قانونی ضرورت ہے لیکن سندھ حکومت کے پاس جو وسائل موجود ہیں ان کا کتنا استعمال ہوا، یہ وسائل کرپشن کی نذر کیوں ہو جاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کی حمایت بھی ہم اس شرط پر کر سکتے ہیں جب سندھ حکومت ماتحت اداروں کو اختیارات اور وسائل دے، کراچی، لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے بلدیاتی اداروں کو بھی با اختیار بنا کر وسائل دے۔ ٹڈی دل کے مسئلے پر بھی سندھ حکومت پہلے اپنی ذمے داری پوری کرے۔ اسپرے کا مناسب انتظام کرے،سندھ حکومت کورونا فوبیا سے باہر آئے اور اندون ِ سندھ قتل، اغوااور دیگر جرائم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کرے۔ جعلی ڈومیسائل کے حوالے سے سندھ حکومت نے اختیارات کا جو ناجائز استعمال کیا ہے اسے بند کیا جائے۔ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد اقبال چودھری اور دیگر بھی موجود تھے۔