چند شعبہ جات کے علاوہ تمام شعبوں کو کھول رہے ہیں،وزیراعظم

445

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کم ازکم اس سال کورونا وائرس ختم نہیں ہوگا ہمیں اب  اس کے ساتھ جینا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والےقومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کےاجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ محض 26 کیسز پر ہی ہم نے لاک ڈاؤن کیا، اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا حالات ہوں گے،بعد ازاں عالمی حالات کا جائزہ لیا تو پتہ  چلاہمارےحالات چین اور یورپ کی طرح نہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میرے ذہن میں تھا کہ اگر پاکستان میں یورپ جیسا لاک ڈاؤن کیا گیا تو ان غریبوں کا کیا ہوگا؟،ہمارے ملک میں ان ممالک کے مدمقابل غربت ہے، 5 کروڑ افراد دو وقت کا کھانا نہیں کھاسکتے، ڈھائی کروڑ افراد یومیہ کمانے والے ہیں جو اگر روز نہیں کمائیں گے رو ان کے گھر کا چولہا نہیں جلے گا اور خاندان کی کفالت نہیں کرسکے گا۔

عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے متعلق امیروں کا رویہ مختلف تھا جبکہ دوسری طرف غریب، دیہاڑی دار لوگوں کا مختلف رویہ تھا بطور وزیراعظم میں نے دو طرف دیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس کا علاج نہیں، میں پہلے دن سے اس بات کا حامی ہوں کہ وائرس کے علاج میں شعبہ طب پر اتنا بوجھ نہ لادا جائے صرف پھیلاؤ کم کیا جائے لیکن لاک ڈاؤن سے غریب متاثر ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کورونا نے مزید بڑھنا ہے اور افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا کہ شرح اموات میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ہمیں وائرس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وائرس کے ساتھ کامیاب طریقے سے جینے کی ذمہ داری عوام کی ہے، اگر لوگ لاک ڈاؤن کے دوران عام زندگی گزارنے لگے اور احتیاط چھوڑدی تو اس کا نقصان عوام کو ہی پہنچے گا، عوام تجویز کردہ ایس او پیز پر عمل کر کے اس وبا سے بچنا ہوگا۔

انہوں نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کیا تو وہاں عوام کا برا حال ہوا، کافی لوگ مرگئے انہیں میلوں پیدل چلنا پڑا لیکن پھر بھی وہاں کورونا وائرس پھیلا اور اسپتال بھر گئے لیکن اس کے باوجود انہیں بھی ملک کھولنا پڑے جس کی وجہ غربت ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جن شعبہ جات میں خطرہ زیادہ ہے انہیں تاحال بند رکھا جائے گا تاہم بقیہ تمام شعبہ جات کھلے رہیں گے جن کی فہرست جلد سامنے آجائے گی۔

اوورسیز کو پاکستانیوں کو جلد وطن واپس لانے کا فیصلہ

انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق اعلان کیا کہ انہیں جلد از جلد اور بڑی تعداد میں واپس پاکستان لایا جائے گا جس کے لیے فلائٹس کی تعداد بڑھائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس اسکریننگ کی سہولت محدود تھی اور صوبوں کو اعتراض تھا کہ بڑی تعداد میں بیرون ملک سے شہریوں کو نہ لایا جائے اس لیے محدود تعداد میں پاکستانیوں کو واپس لایا جارہا تھا۔

سیاحت کا شعبہ کھولنا کا سوچ رہے ہیں

وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت کا شعبہ کھولنا کا سوچ رہے ہیں، کیوں کہ بعض علاقوں میں گرمیوں کے تین سے چار مہینے ہی سیاحت ہوتی ہے اور کاروبار چلتا ہے، اگر یہ وقت لاک ڈاؤن میں نکل گیا تو ان علاقوں میں غربت مزید بڑھ جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ این سی ای اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ہیں وہ کل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی سربراہی میں ہونے والے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے اجلاس کے بعد عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔