تعزیت : فضیلت و اہمیت

2601

یرید احمد نعمانی
انسانی زندگی مختلف اور متضاد احوال و کیفیات کا مجموعہ ہے۔ غمی وخوشی، عسر ویسر، صحت و بیماری، آزادی و اسیری، حاکمیت ومحکومیت سمیت کئی پہلو اور معاملات ہیں جن سے انسان چند روزہ زندگی میں مسلسل دوچار رہتا ہے۔ ان مختلف حالات وواقعات کے رونما ہونے میں حق سبحانہ و تعالیٰ کی جو حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں، انہیں سوائے اس علیم وخبیر ذات کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ تاہم بنیادی مقصد یہ ہے کہ فرماں بردار اور وفا شعار بندہ زندگی کے ہر ہر مرحلے پر پرور دگار عالم جلّ و علا کی طرف رجوع کرے اور کسی موقع پر شریعت مطہرہ کے دائرے سے باہر نہ جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی تعلیمات و ہدایات سے عدم واقفیت اور دین سے دوری کی عمومی فضا نے اس بنیادی فکر کو گہنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان بھائیوں کی بڑی تعداد مسرت ورنج کے مواقع پر غیر اسلامی اور خلاف سنت اعمال اور رسومات پر عمل پیرا نظر آتی ہے اور خود کو رحمت خداوندی کے استحقاق سے دور کررہی ہے۔
حالانکہ اسلام جامع مذہب ہے۔ زندگی کی ہر کیفیت وحالت کے لیے اس کی ہدایات اور تعلیمات واضح اور موجود ہیں۔ جس طرح انسان کا دنیا میں ورود متعلقین کے لیے باعث خوشی ہوتا ہے، اسی طرح اس کی جدائی کا مرحلہ بھی درد انگیز اور غم آمیز ہوتا ہے۔ موت اٹل حقیقت ہے۔ لہٰذا کسی فرد کے انتقال پر لواحقین کو صبر وحوصلہ دینا اور ان کا غم گسار بننا، اللہ کے نبیؐ کی سنت طیبہ ہے۔ عربی زبان میں اس عمل کو ’’تعزیت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس مشینی اور مادی دور کا المیہ ہے کہ خود غرضی، نفسانفسی اور عجلت پسندی کے مظاہر عام ہیں اور جہالت و ناواقفیت نے اس مسنون عمل کی اہمیت اور فضیلت پر پردہ ڈال دیا ہے۔ آئیے تعزیت سے متعلق چند مسنون احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر مشائخ کرام کے افادات کی روشنی میں چند معروضات پیش خدمت کریں گے۔
1۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا: جو آدمی کسی رنج زدہ انسان سے تعزیت کرے، تو اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر وثواب ہے ( جتنا اول الذکر کو ملا ہے)۔ (سنن ترمذی)
2۔ سیدنا معاویہ بن قرّۃ بن ایاسؓ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے حبیبؐ نے کسی صحابی کو غیر حاضر پایا تو ان کے بارے میں دریافت کیا۔ حاضرین نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ان کے جس چھوٹے بچے کو دیکھا تھا، وہ انتقال کرگیا (اسی وجہ سے حاضری سے قاصر ہیں) بعد ازاں سرکار دوعالمؐ نے ان سے ملاقات فرمائی اور ان کے بیٹے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتلایا کہ وہ انتقال کرگیا ہے۔ اس پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے تعزیت کی اور پھر ارشاد فرمایا کہ ’’اے فلاں! تمہیں کیا پسند ہے؟ یہ کہ تم زندگی میں اس سے فائدہ اٹھاتے یا کل قیامت کے روز جب تم جنت کے دروازوں میں سے کسی دروازے پر جاؤ تو اسے اپنا پیش رو پاؤ اور وہی جنت کا دروازہ تمہارے لیے کھولے؟ (یہ سن کر) انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! مجھے تو یہ پسند ہے کہ وہ مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ جائے اور میرے لیے جنت کو کھولے۔ اللہ کے حبیبؐ نے ارشاد فرمایا بس پھر تمہارے لیے یہی کچھ ہے‘‘۔ (مسند احمد)
3۔ سیدنا اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیؐ کی کسی صاحب زادی نے آپ تک یہ پیغام پہنچا کر آپ کو بلانے کی خواہش کی کہ میرا بچہ حالت مرگ میں ہے۔ تو آپؐ نے پیغام رساں سے ارشاد فرمایا کہ واپس جاؤ اور انہیں خبر دے دو کہ جو اللہ تعالیٰ لے لیں اور جو دے دیں، سب انہی کا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، لہٰذا تم اسے حکم دو کہ وہ صبر کرے اور اللہ سے اجرکی امید باندھے۔ (بخاری)
لغت میں تعزیت کے معنی ہیں فوت شدہ پر پہنچنے والی تکلیف پر متاثرہ انسان کو صبر دلانا۔ جبکہ شرعی معنی یہ ہیں کہ متاثرہ انسان کو صبر پر ابھارا جائے، اجر کے وعدے کی امید کے ساتھ اور یقین دہانی کرائی جائے کہ فی الواقع معاملہ اللہ رب کریم کے ہاتھ میں ہے اور اس مالک و خالق کو پورا حق ہے کہ جو چاہے واپس لے اور جو چاہے عطا کردے۔ واضح رہے کہ روایت میں لفظ ’’مصاب‘‘ ذکر ہے، جس کے مفہوم میں ہر صاحب مصیبت وتکلیف داخل ہے اور اس کو صبر و حوصلہ دلانا اس فضیلت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔
محدثین کرام فرماتے ہیں کہ ’’ان للہ تعالیٰ ما اخذ‘‘ (حدیث کے الفاظ) کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پوری کی پوری اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، لہٰذا اس پاک ذات نے کسی انسان پر موت طاری کرکے تمہاری چیز نہیں لی، بلکہ تم سے وہ چیز لی ہے جو حقیقت میں اس کی تھی اور تمہارے پاس عاریتاً (عارضی وقت کے لیے) تھی۔ اسی طرح ’’ولہ ما اعطیٰ‘‘ کا جملہ یہ اشارہ کررہا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی عنایت سے بخش دیا تو وہ بھی اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوگیا، بلکہ وہ اب بھی حق سبحانہ و تعالیٰ کا ہے اور وہ جو چاہے اس میں تصرف کرسکتا ہے۔ کائنات کی ہر شے پر اللہ تعالیٰ کے قابض و متصرف ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شے اپنا وقت مقرر پورا کرے، لہٰذا کوئی بھی وقت موعود سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جب تمہیں یہ حقائق معلوم ہیں تو تم بے صبری کا مظاہرہ مت کرو، بلکہ جو مصیبت یا آفت آئی ہے، اس پر صبر وثواب کی امید رکھو۔
سلف صالحین کے حالات وواقعات کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ حضرات اس حقیقت پر کتنا ایمان اور اس کا استحضار رکھتے تھے۔ منقول ہے کہ کسی آدمی نے اپنے عزیز کو بیٹے کے انتقال پر تعزیتی خط لکھا کہ یاد رکھو! اولاد جب تک زندہ رہتی ہے، باپ کے لیے غم اور فتنے کا باعث بنی رہتی ہے، لیکن جب وہ اس سے پہلے انتقال کرجائے تو اس کے لیے رحمت اور سکون کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا تم اپنے بیٹے سے (متوقع) فتنے اور غم کے فوت ہوجانے پر بے صبری مت دکھاؤ اور اللہ عز وجل نے اس کے انتقال کی صورت میں جو رحمت وبخشش تمہارے لیے تیار رکھی ہے، اسے ضائع مت کرو۔ اللہ رب کریم ہمیں تعزیت کے فضائل کے حصول کا شوق نصیب فرمائیں اور اس موقع پر کی جانے والی بدعات وخرافات کی پیروی سے محفوظ فرمائیں۔ آمین !