ترسیل زر میں کمی۔ زر مبادلہ کے ذخائر پر متوقع دبائو

461

ڈاکٹر سید محبوب
پاکستان کی معیشت کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم ایک بہت بڑا سہارا ہے جو ملک کی ادائیگیوں کے توازن کو بہت زیادہ بگڑنے سے بچاتی ہے۔ ملک بھر کے بیرونی قرضوں پر انحصار کو کم کرتی ہے اور بڑی تعداد میں غیر ممالک جا کر کمانے والوں کی وجہ سے ملک پر بے روزگاری کے دبائو میں بھی کمی آتی ہے۔ زر ترسیل پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 7.9 فی صد ہے جب کہ بھارت کی ترسیل اس کی قومی آمدنی کا محض 2.80 فی صد ہے۔ ورلڈ بینک نے بین الاقوامی زرترسیل میں زبردست کمی کی پیش گوئی کی ہے۔ جو عالمی سطح پر 20 فی صد جب کہ جنوبی ایشیا میں 22 فی صد ہے۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کی نصف لیبر آبادی یعنی ایک ارب 60 کروڑ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کورونا وائرس کے حالات کا شکار ہوئی ہے۔ امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں مقیم پاکستانی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان نے 20 ارب 50 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم زرترسیل کی مد میں وصول کی اور اس سال توقع تھی کہ یہ رقم 20 فی صد بڑھ جائے گی لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ یہ رقم بڑھنے کے بجائے خدشہ ہے کہ 23 فی صد کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے پاکستانی روپے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑ سکتا ہے۔ بیرون ملک بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بے روزگار ہو کر پاکستان آسکتے ہیں جب کہ ملک کی معیشت پہلے ہی کمزور سطح پر ہے جو ان بے روزگاروں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، کویت تیل کی طلب میں نمایاں کمی کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں اور بجٹ میں کٹوتی کررہے ہیں جس کے اثرات بیرون ملک سے آئے ہوئے مزدوروں پر پڑ رہے ہیں۔ پانچ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور بحرین میں مجموعی طور پر بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے والے پاکستانیوں کا 94.5 فی صد حصہ ہے۔ سب سے زیادہ حصہ سعودی عرب کا ہے جہاں 49 فی صد پاکستانی محنت مزدوری اور دیگر کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں 55 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں تقریباً39 لاکھ پاکستانی ہیں جو بیرون ملک کام کرنے والوں کا 35 فی صد، عمان میں 8 لاکھ سے زائد پاکستانی کام کررہے ہیں۔
بیرون ملک زیادہ تر پاکستانی مزدوری کررہے ہیں جو تقریباً 43 لاکھ 40 ہزار اور بیرون ملک کام کرنے والوں کا 38 فی صد ہیں۔ ڈرائیورز کی تعداد 13 لاکھ 77 ہزار ہے جو کل تعداد کا 12 فی صد، مستریوں کی تعداد 7 لاکھ 85 ہزار ہے جو کل تعداد کا تقریباً 7 فی صد ہیں۔ پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں میں سے اکائونٹنٹ 59 ہزار، ڈاکٹرز 26 ہزار، انجینئرز 81 ہزار، منیجر 76 ہزار ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کی تعداد 2 لاکھ 24 ہزار، اعلیٰ ترین مہارت رکھنے والوں کی تعداد 4 لاکھ 26 ہزار ہے۔ بیرون ملک پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے جو کل پاکستانیوں کی تعداد کا 51 فی صد ہیں اور ان کی تعداد لگ بھگ 54 لاکھ ہے۔ دوسرے نمبر پر بیرون ملک کمانے والوں کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا سے ہے جہاں سے 27 لاکھ سے زائد افراد بیرون ملک کمانے کی غرض سے گئے ہیں۔ سندھ سے 10 لاکھ جب کہ بلوچستان کے صرف ایک لاکھ 16 ہزار افراد بیرون ملک کام کررہے ہیں۔کشمیر سے 6 لاکھ 90 ہزار، قبائلی علاقوں سے 5 لاکھ 40 ہزار افراد بیرون ملک ملازم ہیں۔
بیرون ملک سے بے روزگار ہو کر آنے والے پاکستانیوں بالخصوص مزدوروں اور ڈرائیوروں کی دیکھ بھال حکومت کا فرض ہے ان کے لیے خصوصی پیکیج جاری کیا جائے۔ کورونا وائرس نے اب تک دنیا بھر میں 45 لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کیا ہے جب کہ اموات کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے۔ اب تک 17 لاکھ سے زائد افراد صحت یاب ہوچکے ہیں جو کل مریضوں کا 37.68 فی صد ہیں۔ اموات کل کیسز کا 6.70 فی صد ہیں۔ امریکا 14 لاکھ 57 ہزار کیسز کے ساتھ پہلا، اسپین 2 لاکھ 72 ہزار کے ساتھ دوسرا، روس 2 لاکھ 52 ہزار کے ساتھ تیسرا، برطانیہ 2 لاکھ 37 ہزار کے ساتھ چوتھا بڑا ملک ہے۔ جرمنی کے مضبوط صحت نظام کی وجہ سے وہاں صحت مند ہونے والے افراد کی تعداد کل تعداد کا 87 فی صد، چین 94 فی صد جب کہ ایران 79 فی صد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے 9 سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد ہی سے زیادہ امریکا میں مریض ہیں جو عالمی سطح پر کل مریضوں کا 32 فی صد ہیں۔ پاکستان کا عالمی نمبر 19 واں ہے اور یہاں پائے جانے والے مریض دنیا بھر کے مریضوں کا 0.8 فی صد ہیں یعنی ایک فی صد سے بھی کم ہیں تاہم جس تیزی سے یہ مرض پھیل رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ سندھ 14 ہزار 99 ہزار کے ساتھ پہلے نمبر پر جب کہ پنجاب 13 ہزار 914 کے ساتھ دوسرے پر ہے۔ اموات کے لحاظ سے خیبر پختون خوا پہلے نمبر پر ہے جہاں کل اموات کا 35 فی صد ہے۔ پاکستان اور بھارت کا موازنہ کیا جائے تو ٹیسٹ کے مقابلے میں کیسز کی تعداد پاکستان میں زیادہ ہے جس کی شرح 10.8 فی صد جب کہ بھارت میں ٹیسٹوں کے مقابلے میں کیسز کی تعداد 4 فی صد، شرح اموات بھارت میں زیادہ ہے جو 3.23 فی صد ہے جب کہ پاکستان میں 2.16 فی صد ہے۔ صحت مند ہونے والے افراد کی شرح بھارت میں 34 فی صد جب کہ پاکستان میں 24 فی صد ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے ایک جانب اَن دیکھے وائرس کی لپیٹ میں آنے والی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ چیلنجز جس قدر گمبھیر اور ہمہ گیر ہیں سیاسی قیادت اسی قدر غیر سنجیدہ اور باہم دست و گریبان۔ ایک جانب غربت، بے روزگاری اور کورونا دوسری جانب بھارت کے جارحانہ عزائم جس کا تقاضا 1965ء والی یکجہتی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن، وفاق اور سندھ میں جو معرکہ جاری ہے وہ ملک میں مزید تباہی، بے روزگاری اور غربت کا پیش خیمہ ہے۔ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے، ملک کی بڑی جماعتیں پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کورونا سے متاثرہ افراد کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے میدان میں نظر نہیں آرہی، اگر کوئی نظر آرہا ہے تو وہ الخدمت، اخوت، بیت الاسلام، شاہد آفریدی فائونڈیشن کے رضا کار نظر آرہے ہیں باقی سب ٹی وی پر بیان بازی میں مصروف ہیں۔