نقطہ نظر

222

اپنے حصے کی شمع
میرے پیارو مجھے اپنا کہنے والو مجھ میں بسنے والو تم کو میرا سلام۔ تم ہی تو میری خوبصورتی اور میری رونقوں کے ضامن ہو۔ میرے پیاروں میرے دلاروں مجھ کو اپنا گھر کہنے والوں تم اگر چاہو تو مجھے پہلے کی طرح رونقوں بھرا اور پرامن شہر بنادو جس کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ مجھے اندازہ ہے تمہاری تکلیفوں کا، پریشانیوں کا، مسائل کا انبار ہے، مصیبتیں ہیں کہ روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں، نہ حکومت نہ ادارے (اور معاف کرنا تم خود، تم سب بھی تو اس کے ذمے دار ہو)۔ کہیں ذخیرہ اندوزی، کہیں منافع خوری، غربت، بے روزگاری، بیماری، تم کہو گے اتنے مسائل ہیں ان مسائل سے نکلیں تو تمہارے (کراچی) کے بارے میں کچھ سوچیں، یہی کہو گے نا۔ آئو میں بتائوں کیسے نکلو، راستہ میں بتاتا ہوں مگر وعدہ کرو، اس پر عمل کرو گے۔ ایک بڑا سادہ سا عمل کرلو، تم سب بس اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرو۔ مذاق لگ رہا ہے؟ ہنس رہے ہو نا؟ اے میرے پیارو میرے دلارو زندگی گزارنے کے اصول بڑے ہی سادہ ہیں۔ ہم جو اپنے اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں اس کی وجہ فرائض کی عدم ادائیگی ہی ہے۔ سب سے پہلے ایک اچھے انسان اور پھر مسلمان ہونے کا فرض (مسلمان کون؟ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں) ایک تاجر کا فرض چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، جائز منافع لے، صحیح تولے، اچھی چیز مہیا کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری مثال ایک استاد کا فرض طالبعلموں کی رہنمائی صرف ہی نہیں بلکہ صحیح رہنمائی۔ اور درست سمت کی نشاندہی کرے۔ ایک ڈاکٹر کا فرض ناجائز ٹیسٹ، غیر ضروری دوائوں سے پرہیز کرے، غریبوں کا لحاظ کرے اور مناسب فیس لے۔ اسی طرح اور بہت سے پیشے جیسے خاکروب، ماسی، الیکٹریشن، پلمبر، وکیل، غرض جو جو جس شعبے سے وابستہ ہے اپنے فرائض کی ادائیگی پوری دیانتداری سے کرے۔
رخسانہ شکیل