اچھی بات کہنے کا بُرا انداز

547

خواتین کے حقوق کے نام پر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی مسائل تو وہیں رہے ملک ومعاشرے میں ایک نئی تقسیم اور نئی کشمکش تیز ہو گئی۔ اچھی سے اچھی بات کو بھونڈے اور برے انداز میں بیان کیا جائے تو اول تو اس کا اثر ہی نہیں ہوتا اور ہو بھی تو وہ ردعمل کی اس قدر اونچی بازگشت کو جنم دیتی ہے کہ اصل آواز کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ چند برس سے خواتین کا عالمی دن آنے سے پہلے ہی خواتین کے حقوق کے نام پر ملک میں ایک عجیب بحث چھڑ کر اتفاق رائے کے بجائے ایک نئے افتراق کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ہونے والی سرگرمیاں بظاہر تو خواتین کے حقوق کے نام پر جاری ہیں مگر حقیقت میں یہ ملک میں جاری کشمکش کو مزید گہرا کرنے کی نہ صرف شعوری کوشش ہے بلکہ یہ مختلف طبقات میں خلیج کو گہرا کرنے کی سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ ایک طرف خواتین کے حقوق کے نام پر ملک میں تیزی سے اس انداز کے لبرل ازم کو فروغ دیا جانے لگا ہے جو اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی قدروں سے قطعی لگا نہیں کھاتا تو دوسری طرف اپنی بات کرنے کا جو انداز اپنایا جا رہا ہے اس کا مقصد دوسرے نکتہ نظر کے علم برداروں کو مشتعل کرکے ایک جذباتی ماحول بنانا ہے۔ یہ کیفیت جنگل وجدل اور کشمکش اور دھینگا مشتی کے لیے تو موافق ہوتی ہے مگر مکالمے کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں کر سکتی۔ اس سے معاشرے میں برداشت کے رویے اور روایات کمزور پڑتی ہیں اور لہجوں کی یہ تلخی آخر کار زور بازو آزمانے تک جا پہنچتی ہے اور کسی بھی معاشرے میں پرامن مکالمے کا دروازہ بند ہونا تشدد کو جنم دیتا ہے۔ اپنی بات کو دلنشیں انداز اور اسلوب میں بیان کرنا ایک فن ہوتا ہے۔ دلوں کی تسخیر کا یہی بہترین انداز ہوتا ہے کہ شیریں سخنی کو اپنایا جائے۔ اس سے کسی کاز کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ گویاکہ کسی فرد کو اپنے پیغام اور نظریے کی قبولیت عامہ میں دلچسپی ہے یا اپنی شخصیت کو اُبھارنے، مرکز توجہ بننے اور اپنا قد اونچا کرنے اور بے جانمود ونمائش کا شوق ہے۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی بات کرنے والے اس وقت اپنے کاز اور نعرے ونظریے کے بجائے اپنے قد کو اونچا کرنے اور ایک مصنوعی لہر اُٹھا کر اپنے فنانسرز سے داد وتحسین سمیٹنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ یوں تو یہ ایک عالمگیر کشمکش اور ہر ملک ومعاشرے کا قصہ ہے مگر پاکستان اس تحریک کا مرکزی ہدف ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بہت سے جیو پولیٹیکل معاملات سے جڑی ہوئی ہے اس لیے بہت سی قوتیں اس کی نظریاتی شناخت اور اساس کو بدلنے پر کمر بستہ ہیں۔ اس کام میں پاکستانیوں کا کندھا بھی استعمال ہوتا ہے تو بیرونی دنیا اور اداروں کے مالی وسائل کام میں آتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت لبرل ازم کی جو تحریک چل رہی ہے اسے فارن فنڈڈ پروجیکٹ کے طور پر این جی اوز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے سلوگن ملک کی اکثریت کو مشتعل کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس طرز فکر و اظہار سے جہاں ماروی سرمد جنم لیتی ہیں وہیں ان کی سرعام تذلیل کرنے کے لیے خلیل الرحمن قمر بھی سامنے آتے ہیں۔ ایک ٹی وی شو میں دونوں کے درمیان جو تو تکار ہو ئی کسی طور قابل تحسین نہیں مگر مجموعی طور پر خلیل الرحمن کو ماروی سرمد کو کھری کھری سنانے پر رائے عامہ میں اس قدر پزیرائی ملی کہ جو ان کے ڈرامے کے کردار ’’دانش‘‘ کو بھی نہیں ملی تھی جب اسے ڈرامے کے ایک موڑ پر مار دیا گیا تھا اور پوری قوم اس کے غم میں سوگوار ہو گئی تھی اور کئی روز تک سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ دانش کی موت رہا تھا۔
پاکستان میں نظریاتی تقسیم بہت پرانی اور گہری رہی ہے۔ ایک دور میں یہ تقسیم دایاں بازو اور بایاں بازو کا نام اور عنوان رکھتی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا بھر کی سیاسی اور نظریاتی حرکیات میں تبدیلی آئی اور دائیں اور بائیں کی نظریاتی تقسیم بظاہر ختم ہوئی مگر حقیقت میں یہ ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک نئے نام اور عنوان کے ساتھ جاری رہی۔ سوویت یونین کے زیر اثر بائیں بازو نے سرخ انقلاب کو ایک خواہش ناتمام اور کوشش ناکام سمجھ کر خود کو مغرب کے ساتھ جوڑ دیا اور مغرب نے بھی ان نظریات کے حامل طبقات کو این جی اوز کے نام پر گو د لے لیا۔ اب یہ طبقہ لبرل ازم کے نام پر پاکستانی معاشرے کی قدیم، روایتی اور مذہبی اقدار کے ساتھ محوِجنگ ہے۔ مغرب نے لبرل ازم کو ایک پروجیکٹ کے طور پر چلانا شروع کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر خاتون اس پروجیکٹ سے معاشی طور پر مستفید ہوتی ہو مگر اصل حکمت کار اسے ملک میں جاری یونیسف اور یونیسکو کے صحت، تعلیم، پانی کی طرح ایک بیرونی پروجیکٹ کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اس کشمکش میں اگر بات کرنے کا انداز باوقار اور جیو اور جینے دو کے تصور ات پر مبنی ہوتا تو شاید سماج کا مرکزی دھارا اسے نظرانداز ہی کر دیتا مگر یہ طبقہ لبرل ازم کے نام پر اپنا جو سودا بیچ رہا ہے اس میں زبان وبیان کا خیال ہے نہ عمومی دھارے کے جذبات کا لحاظ وپاس بلکہ اپنی بات کہنے کے لیے یہ طبقہ پبلک مقامات پر جمع ہوکر عامیانہ اور سوقیانہ زبان استعمال کرتا ہے اس سے صاف لگتا ہے کہ معاملہ حقوق سے زیادہ مخاطب کو مشتعل کرنے کا ہے اور وہ پاکستانی سماجی کے مجموعی دھارے کو مشتعل اور متحرک کرکے اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی گئے ہیں اب انہیں حقوق تو کیا ملنے ہیں مگر پاکستان معاشرے میں ایک فساد اور ہیجان پیدا کرنے پر اصل حکمت کاروں سے داد وتحسین ضرور حاصل ہو رہی ہوگی۔ گویا کہ میرا جسم میری مرضی والی عورتوں نے ایک بھرپور ردعمل کو جنم دیا۔ یہ ردعمل ان کے عمل سے زیادہ بھرپور اور توانا ہے۔ ابھی حجاب اور نقاب والی خواتین دریائی جلوسوں کے ساتھ میدان میں نکل آئی ہیں اور اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مغرب کے جن نعروں کو رزق روزگار کی خاطر ہمارے ہاں بلند کیا جارہا ہے ان نعروں کو مغرب نے ایک ڈھکوسلہ ثابت کرکے دفن کر دیا ہے۔ خواتین کے حقوق، انسانوں کے حقوق، شہری آزادیاں، حق رائے دہی، جمہوریت، انصاف کے نعروں کے ساتھ گزشتہ چند دہائیوں میں مغرب نے جو سلوک کیا ہے اس نے ان نظریات کا سارا میک اپ دھو ڈالا ہے۔ یہ سب خوش نما اصطلاحات ایک علاقے میں ایک تعبیر ورتشریح رکھتی ہیں تو دوسرے مقام پر ان کا مفہوم خود مغرب کے لیے یکسر بدل جاتا ہے۔ ایک یا چند ایک مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یہ اصطلاحات واقعی ایک زندہ حقیقت ہوتی ہیں اور کچھ اور مذاہب کے لیے یہ اصطلاحات بے مقصد اور بے روح جسم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کے لیے ہمارے معاشرے میں سب اچھا ہے ہمارے حرماں نصیب معاشرے میں جو مسائل ہر طبقے کے ہیں ان کا سامنا خواتین کو بھی کرنا پڑ رہا ہے عمومی طور پر خواتین کے حالات نسبتاً بہتر ہیں کہ سماج میں انہیں عزت وتکریم کا ایک مخصوص درجہ حاصل ہے۔