دہلی فساد فلم کا ٹریلر

566

بھارت کا دارالحکومت دہلی ایک بار پھر خون میں نہا گیا۔ کشیدگی کے جو بادل دہلی میں کچھ عرصہ سے عوام کے سروں پر منڈلا رہے تھے خونیں برسات بن کر پوری طرح برس گئے۔ شہریت کے متنازع اور متعصبانہ قوانین کے خلاف سراپا احتجاج مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں نے قیامت برپا کر دی۔ تین روز سے جاری حملوں میں سینتیس افراد ہلاک اور سیکٹروں زخمی ہو گئے۔ مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں محفوظ علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ امیت شاہ کی ماتحت دہلی پولیس فسادیوں کو روکنے میں قطعی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ مسلمان علاقوں میں متاثرین نے بتایا کہ وہ پولیس سے حملہ آوروں کو روکنے کی درخواست کرتے رہے مگر پولیس اہلکاروں کا جواب تھا کہ انہیں کسی کارروائی کے احکامات نہیں ملے۔ اس طرح پولیس بلوائیوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے کر تشدد کی بالواسطہ سرپرستی کرتی رہی۔ ایک مقام پر متاثرہ مسلمان دکاندار نے براہ راست دہلی پولیس پر حملے کا الزام عائد کیا۔ دہلی پولیس کے اس کردار پر اعتراض کرنے والے عدلیہ کے ججوں کو انتقامی طور پر تبدیل کر کے دوردراز کے علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ ایک مسجد اور درگاہ کا تقدس بری طرح پامال کیا گیا۔ مسجد کو نذرآتش کرنے اور اس کے مینار پر ترنگا اور زعفرانی جھنڈا لہرانے کی وڈیو وائرل ہو چکی ہے۔ اس وڈیو میں انتہا پسندوں کے نفرت اور نخوت سے بھرے ہوئے اصل چہروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مسجد کے بے حرمتی کرکے اس پر زعفرانی جھنڈا لہرانے کو اپنی فتح سمجھنے والے ہندو انتہا پسند حقیقت میں تباہی کی داستان لکھ رہے ہیں۔
دہلی میں تشدد کی حالیہ لہر میں اندرا گاندھی کے قتل کے خلاف پھوٹ پڑنے والے تشدد کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی جب سکھ محافظوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندئووں نے دہلی میں سکھوں پر قیامت برپا کر دی تھی۔ ان حالات کا شکار ہونے والے سکھ دنیا کے جس کونے میں موجود ہیں تشدد کے ان واقعات کو آج تک بھلا نہیں پائے۔ سکھوں کے خلاف اس تشدد کو ریاست کی پوری سرپرستی حاصل تھی کیونکہ کانگریس کی حکومت اپنی وزیر اعظم کے قتل پر غصے میں بھری بیٹھی تھی اور راجیو گاندھی کے لیے یہ غصے اور نفرت کی آخری حد تھی۔ بعد میں تشدد کایہ انداز گجرات میں دیکھا گیا جہاں نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے۔ گجرات کے اس تشدد میں بھی ریاست اور ریاستی اداروں نے مسلمانوں کے خلاف ہندو بلوائیوں کی کھل کر مدد کی اور اس بار یوں لگا کہ نریندر مودی اپنا گجرات کا تجربہ دہلی میں آزمانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
نریندر مودی اور امیت شاہ کی سرپرستی میں ہندوتوا کی جو سوچ پروان چڑھ کر ریاستی اداروں کی فیصلہ سازی پر حاوی ہورہی تھی آخر کار اب پوری طرح اپنے پر پرزے نکال چکی ہے۔ کشمیر تو مدتوں انتہاپسندی کی اس سوچ کی چکی میں پس ہی رہا ہے مگر اب یہ سلسلہ بھارتی مسلمانوں تک پہنچ گیا ہے جو اس سوچ کا اصل ہدف اور منزل تھا۔ یہ سوچ نئی بھی نہیں بلکہ اس انتہا پسندانہ سوچ سے گھبرا کر اور آنے والے حالات کو بھانپ کر بانیان پاکستان نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ ان میں سب بہت لبرل اور اعتدال پسند تھے اور و ہ برسوں ہندو قیادت اور سماج کے ساتھ اپنا وقت گزار چکے تھے۔ ان میں سے بہت سے مسلمان راہنما مغربی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ تھے۔ ہندو سماج کے ساتھ ان کے تعلقات اور رسم وراہ بہت گہری تھی مگر یہ ہندو ذہنیت کے مزاج آشنا تھے۔ ہند وسماج اور قیادت کے ساتھ قربت ہی نے انہیں یہ بتادیا تھا کہ ہندوسماج میں مسلمانوں کے برابری کا کوئی تصور نہیں اس فکر وسوچ میں یا تو مسلمانوں کو ہندو بن کر رہنا ہوگا یا پھر انہیں دوسرے درجے کا شہری بننا پڑے گا۔ مسلمان قیادت نے ہر ممکن طریقے سے ہندوستان کو متحد رکھ کر مسئلے کا باعزت اور برابری پر مبنی حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ہندو ذہنیت نے مسلمان قیادت کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا اور یہی مایوسی پہلے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کی صورت چھلک پڑی جس میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ ریاستوں کا تصور پیش کیا۔ بعدازاں منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں منظور ہونے والی قرارداد میں بات کچھ اور کھل کر سامنے آئی اور آخر ی قدم کے طور پر مسلم لیگ نے اس قرارداد کو اپنا دو ٹوک موقف بنا کر الگ وطن سے کم کسی بات پر سمجھوتا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
متعصب اور مسلمان دشمن ہندو ذہنیت آج زیادہ توانا اور جدید وسائل سے لیس ہو چکی اس سوچ کو پنپنے اور وسعت پزیز ہونے کو بھارت کی ریاست اور اس کے وسائل حاصل ہو چکے ہیں۔ افراد کا ایک گروہ جنونیت پر آمادہ ہوجائے تو اسے کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔ قوانین کے ذریعے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ایسی کسی بھی سوچ کا تدارک کیا جا سکتا مگر جب ایک ریاست اور مملکت جنونیت کی راہ پر چل پڑے تو وہ ایک بڑی آبادی اور وسیع علاقے کے لیے تباہی کا باعث بنتی ہے۔ آج بھارت بطور ریاست جنونیت اور انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑا ہے۔ انتہا پسندی کی مخالف قوتیں روز بروز کمزور اور تنہا ہوتی جا رہی ہیں اس کے برعکس انتہا پسند حکومت کو فوج کا ساتھ حاصل ہو چکا ہے۔ عدلیہ بھی اس سوچ کے آگے سرنگوں اور دبی ہوئی ہے۔ اس طرح مظلوموں اور کمزوروں کے لیے امید کی کوئی کھڑکی کھلی نہیںرہی۔ دہلی میں جو کچھ ہورہا ہے بھارت کی جنونیت کا اظہار ہے۔ اس جنونیت کو اگر کشمیر میں ہی کنٹرول کیا جاتا تو آج یہ پورے بھارت میں یوں برہنہ ہو کر انسانوں پر عرصۂ حیات تنگ نہ کر رہی ہوتی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس نے عوام کے پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے مگر پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ اب مشوروں اور تبصروں سے آگے بڑھ کر بھارت کو جنونیت کی راہ پر چلنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں بھارت کے متعصبانہ قوانین پر اس کے خلاف وہی رویہ اپنائیں جو انہوں نے گزشتہ عرصہ میں دہشت گردی کے معاملے میں اپنایا تھا۔ دہشت گردی تو کچھ گروہوں اور افراد کا عمل تھا یہاں تو ریاست دہشت گردی اور مذہبی اور نسلی تفاخر کی پُر خطر راہوں پر چل پڑی ہے۔ دہلی کے فسادات اس فلم کا محض ٹریلر ہیں اصل فلم ابھی ریلیز ہونا باقی ہے کیونکہ جو نفرت ذہنوں میں بھر دی گئی وہ آتش فشاں کی طرح وقفے وقفے سے لاوہ اُگلتی رہے گی۔