کراچی کی تباہی پاکستان کی بربادی

898

 

 

پاکستان کا کوئی ایک ذی شعور، صاحب عقل، اینکر، ادیب، شاعر، فلسفی، سیاستدان یا فوجی حکمران ایسا نہیں جو یہ نہ کہتا ہو کہ کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔ کراچی کے حالات ٹھیک ہوںگے تو پاکستان کے حالات ٹھیک رہیں گے اور کراچی پر امن ہوگا تو پاکستان امن، سکھ اور چین کا سانس لے سکے گا۔ پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اس بات کا معترف نہ ہو کہ پاکستان کی ترقی کراچی کی ترقی و خوشحالی ہی میں پنہاں ہے اس کے باوجود جتنے بھی ’’پاکستانی‘‘ ہیں وہ کراچی کو اپنا سمجھنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں، کیوں نہیں چاہتے کہ کراچی ترقی کرے اور اس کے ذریعے پاکستان دنیا کے خوشحال ممالک میں سر فہرست آ جائے؟۔
اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ کراچی میں جو آبادی اس وقت واضح اکثریت میں ہے وہ ان افرد کی ہے جو برِصغیر کی تقسیم کے بعد موجودہ پاکستان کی سرحدوں کے اْس پار سے آکر آباد ہوئے۔ گو کہ یہ سارے کے سارے مسلمان اور پاکستان بنانے والی تحریک میں شامل افراد کی اولادوں میں سے ہیں لیکن جس خطہ زمین کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا یا ہے، ان کی اور یہاں پر آباد مقامی آبادی والوں کی بود و باش میں بہت واضح فرق تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے جس خطے میں سرحد کے اْس پار سے آئے لوگ یہاں آباد ہوئے، یہاں کے مقامی لوگوں نے نہایت دریا دلی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے لیے اپنی سر زمین کو امن کی سرزمین بنا کر ان کے آباد ہونے پر کسی قسم کے منفی ردِ عمل کے بجائے، پیار اور محبت کا مظاہرہ کیا۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ یہاں کے مقامی باشندوں اور سرحد پار سے آکر آباد ہونے والوں کی محبت میں آج بھی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں دیکھی جاسکتی۔ ایک ہی محلے میں ہر قومیت کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر نظر آتے ہیں۔ کوئی مسجد، مدرسہ، اسکول، بازار، گلی اور آبادی ایسی نہیں جہاں پاکستان کے سارے رنگ آپس میں قوسِ قزح کی مانند نہ دیکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کو بنے 70 برسوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اب تو تقریباً ہر قوم ہر دوسری قوم سے رشتہ ازدواج تک میں اس طرح جڑ چکی ہے کہ ان کی نئی نسل یہ کہہ ہی نہیں سکتی کہ وہ والد کے رشتے داروں سے قریب ہیں یا دودھ کا رشتہ انہیں زیادہ عزیز ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود قابل افسوس بات یہ ہے کہ جب بھی بات کراچی کی آتی ہے، حکمرانوں کی نیت معلوم نہیں کیوں اپنا اخلاص کھو دیتی ہے اور ان کی توجہ کراچی کی جانب سے کیوں ہٹ جاتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایک قانون بنا جس کو ’’کوٹا سسٹم‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ کوئی دیانتداری سے بتائے کہ ’’شہری‘‘ اور ’’دہی‘‘ تفریق کے اس قانون سے سندھ کا وہ کون سا شہر، اور وہ کون سی آبادی تھی جو اس کی زد میں آ سکتی تھی؟۔ پھر یہی نہیں کہ بھٹو دور کے ختم ہونے کے بعد اس قانون میں ترمیم کر لی گئی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جو قانون صرف 20 برس کے لیے بنایا گیا تھا، اس میں توسیع ہوتے ہوتے آج کا دن آن پہنچا ہے لیکن وہ قانون بالکل اسی انداز میں موجود ہے اور مستقبل میں بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس میں کسی قسم کا کوئی رد و بدل ہو سکے گا۔ اس سے بحث نہیں کہ اس قانون کے اب تک تسلط میں کن کن سیاسی پارٹیوں کی شرکت یا قصور رہا ہے، بحث ہے تو اس بات سے کہ اس قانون کی زد سندھ میں آباد کس کمیونٹی پر زیادہ پڑی ہے۔ کوٹا سسٹم کا اصل مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ سندھ کے وہ پسماندہ علاقے جہاں بنیادی یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں نہیں ہیں یا بہت کم ہیں، وہاں کے طالبِ علموں کو اوپر آنے کا موقع ملے۔ مجھے اس قانون سے بے شک کبھی اتفاق نہیں رہا اس لیے کہ اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کی سہولت 70 برس گزرجانے کے بعد اب بھی صرف اور صرف سندھ کے ایک دو شہروں میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی بھی علاقے کا کوئی طالبِ علم ایک مرتبہ کسی پروفیشنل تعلیمی درس گاہ میں داخلے کا حق دار بن جاتا ہے تو پھر اس کے فرسٹ کلاس ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے بعد دہی اور شہری کی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی البتہ مڈل کلاس تک کی تعلیم کی اور بات ہے۔ باقی رہا بورڈ کا معاملہ تو خواہ وہ میٹرک بورڈ ہو یا انٹر بورڈ، پورے سندھ کا معیار بہر صورت ایک ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ کہیں کے پرچوں اور ان کے سوالات کا معیار ایک دوسرے کے متوازی ہی ہوتا ہے۔ جب معیار متوازی ہی ہوا تو پھر معیار (میرٹ) میں تفریق کی ضرورت ہی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ ہوا یہ کہ بورڈ کے متوازی معیارات اور اعلیٰ یونیورسٹیوں اور پروفیشنل یونیورسٹیوں کے ایک جیسے معیار ہونے کے باوجود ’’شہری اور دہی‘‘ تفریق کو بر قرار رکھا گیا۔ ایک ستم یہ بھی ہوا کہ ان لوگوں کی اولادیں جو سر حد کے اس پار سے موجودہ پاکستان میں آباد ہیں کیونکہ ان کا یہاں کوئی ’’دیہات‘‘ نہیں تھا اور وہ صرف اور صرف شہری کوٹے پر ہی کسی جاب کے لیے منتخب ہو سکتے تھے وہ اکثر شہری نشست سے منتخب ہونے سے یوں بھی رہ گئے کہ جن کا دیہات تھا وہ شہروں میں بھی اپنی جڑیں بہت گہری رکھتے تھے۔ جب کوٹا سسٹم متعارف ہوا، اس وقت میں کالج کا طالب علم تھا۔ میں نے کہا کہ اول تو یہ ایک ’’متعصبانہ‘‘ قانون ہے لیکن پھر بھی میں یہ رائے دینا چاہتا ہوں کہ بے شک کسی بھی آسامی پر انتخاب شہری کوٹے سے ہو یا دہی کوٹے سے، لیکن خدارا اس بات کو پھر بھی یقینی بنایا جائے کہ جس کا بھی انتخاب کیا جائے وہ بہر کیف صرف اور صرف ’’اہلیت‘‘ (میرٹ) پر کیا جائے۔ لیکن پاکستان کی اور خصوصاً سندھ کی یہ بد قسمتی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے تا حال، پاکستان کی کسی بھی حکومت کے محکموں میں کوئی ایک اسامی بھی اہلیت کی بنیاد پر پْر نہیں کی گئی کیونکہ کوٹا سسٹم سے متاثر ہونے والے سندھ کے بڑے بڑے شہر اور خاص طور سے کراچی تھا (بلکہ آج تک ہے) اس لیے پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں لازماً پیچھے ہی رہ جانا تھا۔ ایک ایسا شہر جس کی آبادی سے وفاق کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف ’’پاکستانی‘‘ کہے اور صوبے والوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سندھی سمجھیں، وہاں کے باشندوں پر نہ تو سندھ کوٹا سسٹم کی تلوار کو ان کے سروں سے ہٹانا چاہتا ہے اور نہ وفاق ان کو مخلص پاکستانیوں میں شمار کرنے کے لیے تیار ہے۔
کراچی دشمنی کی وجہ سے پورے پاکستان میں میرٹ کا جو خون ہوا اس کے نتائج آج پورے پاکستان کے سامنے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت وزیر اعظم پاکستان کی تقریر کے وہ الفاظ ہیں جس میں انہوں نے صاف صاف یہ بات کہی کہ ’’نوجوان اگر اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں تو سرکاری ملازمت اختیار کر لیں۔ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کا ان کے نزدیک کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں کہ وہ کام کریں یا نہ کریں تنخواہیں ان کو لازماً ملیں گی اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ان کے پیٹ عمر بھر بھرتی رہیں گی‘‘۔ وزیر اعظم کو اس بات پر بے شک پورے پاکستان سے سخت تنقید کا سامنا ہے لیکن کیا انہوں نے یہ بات غلط کہی ہے؟۔
کراچی تو بے شک اس انداز میں آگے نہ بڑھ سکا جیسا اسے بڑھنا اور پاکستان کا ایک کڑیل بیٹا بننا چاہیے تھا لیکن کوئی مجھے صرف اتنا بتائے کہ کیا اہل کراچی فاقوں کی وجہ سے بھوک سے مر رہے ہیں؟۔ جن کے شہر کے بینک، ملیں، کارخانے، اسپتال، تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ سرکاری اور صوبائی محکمے حتیٰ کے مقامی پولیس بھی اب ان کی نمائندگی سے محروم ہے، ان کو تو کب کا مر کھپ جانا چاہیے تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج بھی ان کا ہر ایک گھر اتنا متمول کیوں ہے کہ پاکستان کی ہر قومیت ان کے گھروں میں ملازمتیں کرکے اپنے بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بند و بست کرتی نظر آتی ہے۔ یہ اہل پاکستان سے شکوہ نہیں بلکہ ’’توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ ہے کہ جو اپنے لیے راہیں تلاشنا جانتے ہوں، ان کو جب تک معیشت کی بڑھوتری کے لیے آگے آنے کا آزادانہ موقع فراہم نہیں کیا جائے گا، ہر اسامی اہلیت کی بنیاد پر پُر نہیں کی جائے گی، میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت تک کراچی صحیح معنوں میں کبھی ترقی نہیں کر سکے گا اور یہ بات بھی پتھر کی لکیر ہے کہ جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا اس وقت تک کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک خوشحال ملک بن سکتا ہے تو 72 سال تو گزر ہی چکے ہیں اگر یہ کافی نہیں تو اور 72 سال اپنے اپنے تجربے کر کے دیکھ لیں، نتیجہ مزید منفی تو سامنے آسکتا ہے، مثبت کبھی نہیں آ سکتا۔