صدر وزیراعظم کے خلاف جسٹس فائز کا جواب

779

الزامات کے کھیل سے پاکستانی قوم کی معلومات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے یہ کھیل حکمران اور ایجنسیاں شروع کرتی ہیں جب معاملات ان کے ہاتھ سے نکلنے لگتے ہیں تو نیا کھیل شروع کر دیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کے خلاف صدارتی ریفرنس نے معاملات الٹ دیئے ہیں۔ اب تک تو معاملہ یکطرفہ چل رہا تھا یا ٹھنڈا تھا لیکن اسکرپٹ لکھنے والے اور معاملات کو الجھانے سلجھانے کے ماہرین نے اچانک معاملات پلٹ دیئے۔ اٹارنی جنرل انور منصور کو کیا پڑی تھی کہ ججز پر الزام لگا دیں۔ یہ سب کہیں طے ہوا تھا… لیکن یہ بھی وہیں طے ہوا تھا کہ جب انور منصور یہ کہہ دیں گے تو ان کے پیچھے سے ہٹ جائیں۔ چنانچہ یہی ہوا اور انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اب سابق اٹارنی جنرل نے وزیر قانون اور وزیر قانون نے سابق اٹارنی جنرل پر الزامات لگا دیئے ہیں اسی سے عوام کو بڑی معلومات مل رہی ہیں۔ البتہ پاکستان بار کونسل نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ کردیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ فروغ نسیم عدلیہ کو بدنام کرنے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کے لیے کام کیا۔ بار کونسل نے انور منصور کے استعفیٰ کا خیر مقدم کیا ہے۔ فروغ نسیم نے اپنی وضاحتیں کی ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے ججوں کی جاسوسی کرنے پر صدر اور وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ میں جواب الجواب داخل کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے میرے خاندان کی جاسوسی کے لیے برطانیہ میں نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے اصل بات یہ کہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی آف شور کمپنی کے مالک ہیں اور انہوں نے اسے چھپایا ہے۔ میرے خاندان نے اپنے نام سے جائدادیں خریدیں انہیں آف شور کمپنیوں میں نہیں چھپایا۔ وزیراعظم اور دیگر سیاسی شخصیات نے جائدادیں چھپائیں۔ ایک سیاسی شخصیت کو سزا بھی ہوچکی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے بہت سی باتیں کہہ دیں اور بہت سی باتوں کی جانب اشارے کر دیے ہیں۔ اور یہ اشارے بہت واضح ہیں۔ یہ معاملہ فیض آباد دھرنے سے بگڑا تھا جن لوگوں کے نام آئے اور جو میڈیا کے سامنے بھی آگئے، ان کو بچانے کی ذمے داری حکومت کو تفویض کی گئی اور اس نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ جج کو پھنسا دیتے ہیں لیکن اب خرابی بہت ہوگئی ہے اب عدلیہ اور حکومت فریق ہیں۔ حکومت اور وکلاء فریق ہیں اور سارے معاملے کا اصل فریق ہنوز پس پشت ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے جواب الجواب میں فیض آباد دھرنے کا حوالہ دے کر اصل فریق کا بھی ذکر کردیا ہے۔ یہ صورتحال بہت سنگین ہے۔ حکومت کے پاس جتنا اختیار ہے وہ تو نواز شریف اور زرداری کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اسے اس سے غرض نہیں کہ ملک میں گندم، آٹے، دال کا جو بحران ہے اس کا حل نکالنا بھی ہے یا نہیں۔ پیٹرول، بجلی، گیس اور ڈالر کے نرخ کہاں جا کر ٹھہریں گے ان کی بھی کوئی حد ہے یا نہیں۔ اگرچہ وزیر موصوف فروغ نسیم نے تھوڑی بہت وضاحت کی ہے کہ ججز کی جاسوسی ہوئی نہ ہونے دوں گا۔ لیکن اس کا اعتراف تو حکومت خود کر چکی۔ اب حکومت یا دوسرا فریق خاموش تو بیٹھے گا نہیں لہٰذا نیا کھیل شروع… معاشی مسائل تو الگ رہے۔ کشمیر، بھارتی دہشت گردی، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف کے قرضے اور شرائط۔ او آئی سی کا بحران، سعودی عرب، ایران، ملائیشیا، ترکی کے معاملات کا کیا ہوگا۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ سلیکٹرز حکومت کا بوجھ مزید برداشت نہیں کر پا رہے اس لیے انہیں ایسا راستہ سوجھ رہا ہے کہ اس سے جان چھڑا لی جائے۔ حکومت کے سربراہ جناب عمران خان ہیں اور ان کو جو ٹیم ملی ہے وہ کھچڑی ہے۔ اسے پی ٹی آئی کی ٹیم تو ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ بار کونسل نے الزام لگایا ہے کہ فروغ نسیم غیر جمہوری قوتوں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت صرف بار کونسل اور فروغ نسیم میں جھگڑا ہے اس لیے ان ہی کا نام لیا گیا ہے۔ ورنہ پاکستان بار کونسل سے پوچھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اہم وزیر شیخ رشید کے بارے میں کیا خیال ہے۔ موصوف نے ہمیشہ کون سی جمہوری قوتوں کے لیے کام کیا ہے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ تھے جو بظاہر جمہوری قوت تھے لیکن نواز شریف خود غیر جمہوری قوت کے آدمی تھے۔ پھر جب جنرل پرویز آئے اور انہیں سیاسی لیڈروں کی ضرورت پڑی تاکہ اپنا چہرہ سیاست کے پردے میں چھپا سکیں تو انہوں نے ق لیگ بنائی اور یہی شیخ رشید ان کے نمبر دو بنے۔ ترجمان بھی یہی تھے۔ اگر سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کی بات کی جائے تو وہ بھی جنرل پرویز کے ساتھ رہے اور پی ٹی آئی کی سب سے اہم حلیف ق لیگ ہے جس کے چودھری برادران خصوصاً چودھری شجاعت تو جنرل پرویز کی خاطر ن لیگ کو توڑنے کا کارنامہ کر چکے تھے۔ تو پوری حکومت میں جمہوری قوتوں کے لیے کام کرنے ولا ہے کون۔ وزیراعظم خود اپنے انتخاب کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ بہرحال اس وقت قومی سیاست شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کا حل تو اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہے لیکن وہاں سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے۔ کشمیر کے معاملے سے حکومت اور مقتدر حلقوں کی بے رخی نے بھی صورتحال پراگندہ کر رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی دونوں سرحدوں کا تحفظ خطرے میں ہے۔ ساری توجہ ’’اندرونی دشمن‘‘ کو ٹھکانے لگانے پر مرکوز کی جارہی ہے۔ جنرل پرویز کے زمانے میں تو یہ اصطلاح عام ہوگئی تھی کہ خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے اور یہ اس قدر استعمال ہوئی کہ اندر بے حساب خطرے پیدا کر دیے گئے۔ اب فوج کے لیے سیاسی قوتیں خطرہ ہیں۔ سیاسی قوتوں کے لیے عدلیہ اور فوج خطرہ ہیں اور عدلیہ کے لیے سیاسی قوتیں اور ان کی سرپرست قوتیں خطرہ ہیں جب پورے ملک کے طاقت کے مراکز چور سپاہی والا کھیل کھیلتے رہیں گے تو ملک کون چلائے گا یہ سب مل کر ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں، کب تک مدرسہ، ملائوں، دینی جماعتوں اور اسلام کو الزام دیتے رہیں گے۔