مہنگائی ختم کرنے کے اعلانات و احکامات

598

 آج کل وزیراعظم کے حوالے سے ان کے مشیران اور وزرائے کرام خبریں دے رہے ہیں کہ انہیں عوام پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کا پورا احساس ہے اور وہ مہنگائی کم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 15 سے 20 فی صد کم کرنے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں تجاویز و سفارشات تیار کی جارہی ہیں۔ مزید یہ کہ پٹرول، ڈیزل اور گیس کے نرخوں میں کمی کے لیے کسی جامع پلان بنانے کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کریک ڈائون کرنے کا حکم دے دیا ہے جس میں مختلف ادارے و ایجنسیاں شامل ہوں گے۔ چینی پر سیلز ٹیکس ختم کرنے یا کم کرنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قلت کو روکنے کے لیے ان اشیاء کی برآمدات روک دی ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو گزشتہ تین چار دنوں سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بنی رہیں اور ہو سکتا ہے آئندہ آنے والے دنوں میں مزید ایسی خبریں آپ کے سامنے آئیں۔
قیمتوں میں کمی خواہشات، اعلانات و احکامات سے نہیں ہوتی اس معاملے میں ان عوامل کو ٹھیک کرنا ہوتا ہے جن کے باعث اضافہ ہوا مثلاً جولائی 2019ء سے تمام صنعتی، تجارتی، تعمیراتی اور بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 30 فی صد اضافہ ہوا چنانچہ وہ تمام اشیاء جن کی تیاری اور پیداوار میں گیس کا استعمال ہوتا ہے ان کی قیمتوں میں لا محالہ 30 فی صد اضافہ ہوگا اس کے ساتھ گیس کے صارفین جو مختلف مقدار میں گیس استعمال کرتے ہیں ان کے مختلف سیلب (Slabs) بنائے گئے جن میں 16 سے 200 فی صد تک اضافہ کیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں میں تمام صارفین کے لیے ڈیڑھ روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ کھانے پینے کی مختلف اشیاء مثلاً پیاز، ٹماٹر، آلو، چینی اور آٹا جو ملک میں قلت ہونے کے باعث باہر سے درآمد کرلیے جاتے تھے ان پر درآمدی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ریگولٹری ڈیوٹی وغیرہ لگا دی گئیں جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان اشیاء کی قلت بھی ہوگئی اور قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ پھر اس پر بس نہیں ہوا بلکہ پٹرول پر جو سیلز ٹیکس 8 فی صد اور ڈیزل پر 13فی صد تھا ان دونوں پر 17 فی صد کر دیا گیا اسی طرح ڈیزل پر پٹرولیم لیوی 8 روپے سے 18 روپے اور پٹرول پر 10 روپے سے 15 روپے فی لیٹر کردی گئی اس سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ مزید یہ کہ حکومت کی لا پروائی، ناتجربہ کاری اور حماقتوں کو دیکھتے ہوئے چینی اور آٹے کی مافیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا گندم اور آٹے کی برآمد اور اسمگلنگ خوب ہوئی۔ حالانکہ اس سے متعلقہ وزارت نے ان اشیاء کی قلت کا اندیشہ پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا کسٹم انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ نے 505 سے کنٹینرز کی نشاندہی کی ہے جو طورخم بارڈر پر اشیاء کی شناخت اور ڈیوٹیز و ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر کلیر کر دیے گئے اس کی تفصیل نہ تو ایف بی آر کے پاس ہے اور نہ ہی وزارت تجارت کے پاس، اس معاملے میں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا مگر حسبِ معمول تحقیقاتی رپورٹ سرد خانے میں ڈال دی گئیں۔
یہی معاملہ چینی کا ہے۔ جہانگیر ترین کا کہنا یہ ہے کہ چینی اگر 55 روپے سے 82 روپے فی کلو ہوگئی ہے تو اس کا فائدہ کاشت کار اور زمیندار کو ہوگا اس لیے کہ گنے کا ریٹ فی من 180 روپے سے 230 روپے ہوگیا ہے۔ مگر ان کے پاس اس بات کا جواب نہیں کہ یہ چینی جو بازار میں مہنگی بک رہی ہے جو گنے کی پرانی قیمت ہے نئی قیمت پر تو گنا ابھی خریدا ہی نہیں گیا اور شوگر ملز نے ابھی تک کرشنگ شروع نہیں کی ہے۔ پاکستان میں چینی کے کاروبار میں 60 فی صد وہ سیاستدان ہیں جو اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا تعلق حکومتی بینچوں سے بھی ہے اور اپوزیشن سے بھی۔ مگر حکومت کو چاہیے کہ ان صنعتوں میں جو لوگ اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھو رہے ہیں ان کو سامنے لائے اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن حکومت تو ق لیگ جیسی چھوٹی پارٹی کی ناراضی برداشت نہیں کرتی جو کئی شوگر ملوں کی مالک ہے۔ حال ہی میں جو چار شوگر کے ڈیلرز پکڑے گئے تھے وہ چار دن میں چھوڑ دیے گئے۔ آج کل تو یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ عمران خان جس نے اپنے پرانے دوست نعیم الحق سے وفا نہ کی اور اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا وہ عوام سے کیا وفا کرے گا۔