نبی کریم ﷺ کا مقا حیا

1196

نبی کریمؐ کی عالی صفات میں سے ایک صفت ’’حیا‘‘ ہے، چونکہ نبی کریمؐ کی ہر صفت کامل واکمل اعلیٰ وارفع ہے۔ اس لیے آپ کی صفت حیا اور مقام حیا بھی سب سے کامل واکمل اعلیٰ وارفع ہوگا۔
’’آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے، کسی چیز کو ناپسند فرمالیتے تو اس کے آثار ہم چہرۂ انور پر محسوس کرتے تھے‘‘۔ (مسلم)
حیا کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
1۔آپ کی محبوب زوجہ، صدیقہ کائنات، سیدہ عائشہؓ فرماتی ہے کہ میں اور نبی کریمؐ ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے، مگر نہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا ہے اور نہ آپؐ نے مجھے دیکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر شرم وحیا کا اعلیٰ مقام اور کیا ہوسکتا ہے…؟
2۔ابھی تک نبوت بھی نہیں ملی تھی کہ تعمیر خانہ خدا میں نبی کریمؐ بھی مشرکین کے ساتھ برابر کے شریک تھے اور پتھر جمع کرنے میں مصروف تھے۔ آپ کے چچا عباس نے آپ کو زبردستی برہنہ کیا، تو فوراً بے ہوش ہوگئے، اس کے بعد آپ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔ ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا تھا؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایک سفید پوش آدمی دکھائی دیا، جس نے کہا: اے محمد! اپنے ستر کو چھپاؤ۔ (سیرت مصطفیؐ1/128) حیا کا یہ عالم تھا۔ قربان جاؤں اس حیا کے پیکر پر!!!
3۔آپؐ کی حیا کا تیسرا واقعہ یوں ہے کہ جب بحکم خداوندی سیدہ زینبؓ سے آپؐ کا نکاح ہوگیا توآپ نے اس کا ولیمہ کیا اور خاص اہتمام فرمایا۔ گوشت روٹی پکوائی اور تقریباً تین سو آدمیوں کو مدعو کیا۔ اکثر لوگ کھانا کھا کر چلے گئے، بعض لوگ کھانا کھانے کے بعد گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، آپؐ کو یہ حرکت ناگوار گزری، مگر آپؐ نے شرم کے مارے کچھ نہ کہا۔ (معارف ادریسی)
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’آیت میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ نبی کریمؐ کو اگرچہ مہمانوں کے اس طرز عمل سے تکلیف پہنچتی ہے، مگر چونکہ خود گھر کے مہمان ہیں اس حالت میں ان کو ادب سکھانے سے حیا مانع ہوتی ہے‘‘۔ (معارف القرآن)
یہ نبی کریمؐ کے مقام حیا کا عالم ہے کہ اپنے شاگرد اور اپنے ہی ایسے جانثار اور وفادار ساتھی کہ اگر ان کو نبی کریم ڈانٹ بھی پلاتے تو ناراض نہ ہوتے، بلکہ خوش ہوجاتے اور عمر بھر یاد رکھتے، مگر اس کے باوجود آپ نے زبان مبارک سے کچھ نہ فرمایا، کتنی حیا ہے؟ میرے رب نے ویسے نہیں فرمایا ہے ’’وانک لعلی خلق عظیم‘‘ یعنی آپ اخلاق کے بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔