صحافتی اور سیاسی حلقوں نے سوشل میڈیا ریگولیٹری قوانین کو مسترد کردیا۔ پابندی کرنا ہوگی‘ حکومت

443

کراچی/راولپنڈی/اسلام آباد(اسٹاف رپورٹر+آن لائن+نمائندہ جسارت) صحافتی اور سیاسی حلقوں نے سوشل میڈیا ریگولیٹری قوانین کو مسترد کردیا۔جمعرا ت کو کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام ہونے والی آل سندھ میڈیا کانفرنس میں سندھ بھر کے پریس کلب نمائندوں، صحافتی تنظیموں،وکلا برادری اور مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنمائوںنے شرکت کی۔ کانفرنس کے شرکاء نے پیمرا کی جانب سے ویب ٹی وی چینلز اورانٹرنیٹ چینلزکولائسنسنگ کے مجوزہ قوانین کا جائزہ لیا اور اس موقع پر پیش کی گئی قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پیمرا ویب ٹی وی لائسنگ کی تجویز کو یکسرختم کیاجائے، ویب ٹی وی کو لائسنس کرنے کے اقدامات بنیادی انسانی حقوق، جاننے کے حق اور معلومات تک رسائی کے حق کے منافی ہیں، سوشل میڈیا پہ قدغن بھی مسترد کیا جاتا ہے، پیمرا کو خودمختار ادارہ بنایا جائے۔ شرکاء نے مؤقف اختیار کیا کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور ویب کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی عوام کااظہاررائے کے نئے پلیٹ فارم وجود میں آئے ہیں، پیمرا میں کسی بھی ریگولیٹر کے بجائے براہ راست مالکان اور سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں ریگولٹیڈادارے براہ راست مالک یا سرمایہ کار کے اس شعبے کے ایک پروفیشنل سے رابطہ کرتے ہیں جو کہ متعلقہ ادارے میں بطور صدریاچیف ایگزیکیٹو تعینات ہوتا ہے ایسا ہی عمل پاکستان میں اسٹیٹ بینک مالیاتی اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بھی کرتا ہے ،اس حوالے سے ایوان یہ سفارش کرتا ہے کہ پیمراسٹیلائٹ چینلز کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پروفیشنل افراد سے رابطے کو یقینی بنایا جائے، نیوز چینلز میں کہنہ مشق صحافیوں کو ڈائریکٹر نیوز تعینات کرکے ان سے رابطہ کیا جائے۔ سوشل میڈیا پہ قدغن بھی مسترد کیا جاتا ہے۔انٹرنیٹ پر جاسوسی اور اضافی فیس کے بوجھ کو مسترد کرتے ہیں، دنیا بھر میں الیکٹرانک میڈیا کو تکنیکی معاونت جیسا کہ فریکوئینسی ایلوکیشن کے ادارے ہوتے ہیں پیمر ان کو بھی اس طرح صرف تکنیکی معاملے تک محدود کیا جائے ،ایوان نے یہ محسوس کیا ہے کہ پیمرا اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آزادی اظہار آزادی صحافت پر قدغن کا باعث بن رہی ہے، موجودہ حکومت صحافیوں کو ان کے جائزوقانونی حقوق دلوانے میں ناکام رہی ہے اورمالکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بے روزگارکیا جارہا ہے اب تک ایک اندازے کے مطابق 10ہزار صحافیوں اور میڈیاورکرز بے روزگارہوچکے ہیں، اس کے علاوہ تنخواہوں میں غیرقانونی کٹوتی اور تنخواہوں میں کئی کئی ماہ تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے ،صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کے ضلعی نمائندگان کو دیا جانے والا معاوضہ چینل اور اخباری مالکان نے بند کردیا ہے جس سے ان صحافیوں کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے آج کا ایوان اس بات کا بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ سطح کے نمائندگان کے مشاہیرے کو بحال کرے۔ سندھ بھر کے صحافی اور میڈیاورکرز اپنے مطالبات پورے نہ کی صورت میں مرحلہ وار احتجاجی تحریک چلائی جائے گی اور وکلا کی مشاورت اور معاونت سے میڈیا پر پابندیوں بے روزگار کیے جانے کے بعد خلاف قانونی جنگ بھی لڑی جائے گی۔دوسری جانب راولپنڈی میں بلاو ل کی نیب پیشی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں قمر زمان کائرہ اورنیئر بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے بجائے گالم گلوچ بریگیڈ کو لگام ڈالیں۔ ادھر وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ دوسروں کی عزت تار تار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ہورہا ہے لہٰذا اسے ریگولیٹ کرنا بہت ضروری تھا۔ قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ 20،25 ہزار روپے میں چند لوگ ٹرینڈ بناتے ہیں اور معاملہ خراب کرتے ہیں، خواتین اور ناموس رسالت کے حوالے سے بھی حکومتی اقدام ضروری تھا،عام صارف کو ریگولیشن سے کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم فیک اکاؤنٹس والوں کو پریشانی ضرور ہوگی اور دنیا کی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں پر ناموس رسالت کے حوالے سے ہمارا کنٹرول بڑھ جائے گا۔علاوہ ازیں وزیراعظ کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ مختلف عناصر جعلی اکاؤنٹس بنا کر سوشل میڈیا پر پاکستانی سلامتی کیخلاف محاذ آرا ہیں،معاشرے میں عریانی پھیلانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے، نئے قواعد کے تحت سوشل میڈیا کمپنیز کا پاکستان میں دفتر ہونا ضروری ہوگا، سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنا ڈیٹا بینک پاکستان کے ساتھ شیئر کرنا لازمی ہوگا جبکہ کمپنیز متنازع مواد 6 گھنٹے میں ہٹانے کی پابند ہوںگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا قوانین کا مقصد آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانا ہرگز نہیں ہے۔