12 سال قبل شروع کیاجانے والاٹریٹمنٹ پلانٹ مکمل نہیں ہوسکا،لاگت 8 سے 36ارب تک پہنچ گئی

347

کراچی(اسٹا ف رپورٹر)کراچی میں یومیہ بنیادوں پرسیوریج کی 40 کروڑ گیلن سے زائد گندگی ٹریٹمنٹ کے بغیر سمندر میں پھینکی جارہی ہے،12 سال قبل شروع کیاجانے والاٹریٹمنٹ پلانٹ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہوسکاہے،

منصوبے کی لاگت 8 سے 36ارب تک پہنچ چکی ہے مگر کچھوے کی چال سے بڑھنے والا منصوبہ تکمیل سے کوسوں دور ہے تاہم سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کاکہنا ہے کہ 2020میں سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ منصوبہ مکمل کرلیں گے،

سیوریج صاف کئے بغیر سمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مختلف اقسام کے پودے ناپید ہونے سے چھوٹی مچھلیوں کو غذائی قلت کا سامناہے، جبکہ چھوٹی مچھلیاں کم ہونے سے بڑی مچھلیوں کے خوراک کے لالے پڑگئی،

ماہرین کے مطابق کراچی کے سمندر میں ٹریٹمنٹ کے بغیر سیوریج کا گندہ پانی ڈالے جانے کا مجموعی حجم یومیہ 40 کروڑ گیلن سے زائد ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت نے2007 میں ٹریٹمنٹ کے بڑے منصوبے ایس تھری کی بنیاد رکھی جس کی ابتدائی لاگت 7.98 ارب روپے تھی، لیکن یہ منصوبہ التوا میں پڑ گیا،

منصوبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ سمندری ہوا کے باعث مختلف وبائی امراض پھیل رہے ہیں اور شہر کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی الرجی میں مبتلا ہے جبکہ ساحل کے قریب آبی حیات بھی معدوم ہوتی جارہی ہے۔سیوریج کے گندے پانی کا صفائی یا ٹریٹمنٹ کے بغیر براہِ راست کراچی کے سمندر میں گرنا، انسانی صحت کیلئے سنگین خطرہ ہے جسے ٹالنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جارہی۔ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اہمیت کے پیش نظر منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 36.11 ارب روپے کا بجٹ منظور کروایا گیا،

لیکن اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ آج بھی سست روی کا شکار ہے۔اس منصوبے کے تحت ملیر ندی پر 22.72 کلومیٹر اور لیاری ندی پر 33.32 کلومیٹر کی کنڈیوٹ تعمیرکی جانی ہے، لیاری ندی میں بیس کلومیٹر کی تعمیر ہوچکی ہے جو ٹریٹمنٹ پلانٹس تک جائے گی اور اس میں شہر بھر کی سیوریج لائنز ملائی جائیں گی،

پروجیکٹ ڈائریکٹر ایس تھری حنیف بلوچ کے مطابق ماڑی پور ٹریٹمنٹ پلانٹ پہلے 5 کروڑ گیلن اور اب 7.7 کروڑ گیلن سیوریج کا پانی صاف کررہا ہے اور مزید 10.3 کروڑ گیلن پر کام جاری ہے۔حکام کے مطابق لیاری ندی پر 21 ارب سے زائد کا ٹھیکہ ہے اور ملیر ندی پر 14.7 ارب کا ٹھیکہ موجود ہے،

دوسری جانب سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کاکہناہے کہ 2020 میں سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ منصوبہ مکمل کرلیں گے،منصوبے کی تکمیل میں تاخیر صرف حکومت کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے ماحولیات مرتضی وہاب نے کہاکہ کراچی کی سمندری حدود یا تو وفاقی حکومت یا کنٹونمنٹ بورڈکے زیر انتظام ہے،

اس کے باوجود سندھ حکومت کی کوشش ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا منصوبہ جلد از جلد مکمل ہو۔گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کا منصوبہ جو 12 برس میں مکمل نہ ہوسکا،اس کی لاگت بڑھتے بڑھتے 36 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے،

ماہرین کہتے ہیں کہ اس گندگی سے نہ صرف انسانی صحت کو خطرات ہیں بلکہ آبی حیات بھی خطرے سے دوچار ہیں۔ماہرین کے مطابق ایس تھری کا منصوبہ جلد مکمل نہ کیا گیا تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی،

ماہرین کا کہناہے کہ سیوریج صاف کئے بغیر سمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مختلف اقسام کے پودے ناپید ہونے سے چھوٹی مچھلیوں کو غذائی قلت کا سامناہے، جبکہ چھوٹی مچھلیاں کم ہونے سے بڑی مچھلیوں کے خوراک کے لالے پڑگئے،

ٹریٹمنٹ پلانٹ کا منصوبہ جلد مکمل نہ کیا گیا تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔سیوریج کا گندہ پانی ٹریٹمنٹ کے بغیر براہِ راست سمندر میں ڈالنے سے ایک طرف کراچی کی فضا زہر آلود ہورہی ہے تو دوسری طرف آبی حیات کو بھی زندگی کے لالے پڑگئے ہیں،

عالمی اداروں کے سروے بتاتے ہیں کہ بحیرہ عرب کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور اس میں دیگر شہروں کے علاوہ کراچی کا بھی کردار ہے جہاں ہر روز سیوریج کی کروڑوں گیلن گندگی سمندر میں ڈالی جارہی ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کئے گئے تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی،

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے حکام کے مطابق کراچی کا سمندر آلودہ ہونے سے کچھوؤں کی تعداد بھی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ آبی پودوں کی افزائش پر نہایت منفی اثرات پڑے ہیں اور ان کی بہت سی اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ مختصر یہ کہ ٹریٹمنٹ سسٹم کے بغیر سمندر کا اندرونی نظام تلپٹ ہوتا جارہا ہے،

محمد معظم خان، ٹیکنیکل ایڈوائزر، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق چھوٹی مچھلیاں پودے کھاتی ہیں اوربڑی مچھلیاں، چھوٹی مچھلیوں کو، لیکن آلودگی نے کراچی کے سمندر میں آٹا بحران جیسی صورتحال پیدا کردی ہے اور سمندر ی حیات بھی خوراک کے بحران کا شکار ہے،

کراچی میں رہنے والی انسانی اور سمندر میں رہنے والی آبی حیات کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ماہرین کے مطابق سمندر ملکی صنعت و تجارت کے علاوہ سیرو سیاحت اور شہروں کی خوبصورتی بڑھانے میں بھی اہم کردار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سمندر اور ساحلی مقامات کو صاف ستھرا اور آلودگی سے بچانے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے،

مگر کراچی کا سمندر اور مختلف ساحلی مقامات،بتدریج آلودہ اور گندے ہوتے جارہے ہیں۔ جس کا خمیازہ صرف عوام نہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی بھگتنا پڑے گا۔واضح رہے کہ کراچی میں روزانہ 40 کروڑ گیلن گندگی سمندر میں ڈالی جارہی ہے،

گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کا منصوبہ 12 سال بعد بھی تکمیل کا منتظر ہے جبکہ لاگت 3 گنا بڑھنے کے باوجود منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔دو کروڑ سے زائد آبادی والا شہر کراچی، جس سے نکلنے والا فضلہ اور سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈالا جارہا ہے، جو نہ صرف سمندر بلکہ فضا کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔