مودی سرکار کادباؤ‘ بھارتی عدالت عظمیٰ کا شہریت بل پر حکم امتناع دینے سے انکار

253

نئی دہلی(آن لائن) بھارتی عدالت عظمیٰ نے شہریت ترمیمی ایکٹ پر حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کیخلاف دائر درخواستوں پر آئینی بینچ تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس انڈیا ایس اے بولڈے ، جسٹس ایس عبدالنظیر اور جسٹس سنجید کھنہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ کیا۔ گزشتہ روز شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ عبوری احکامات کے بعد یہ معاملہ 5 ہفتوں کے بعد عدالت عظمیٰ میںپیش کیا جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں کوئی بھی عبوری حکم آئینی بینچ ہی منظور کرسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے (سی اے اے ) کے تمام معاملات میں مرکزی حکومت کو حلف نامے جمع کرانے کے لیے 4ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ریاست آسام اور تری پورہ کے معاملات کو الگ سے نمٹا جائے گا اور سینئر ایڈووکیٹ کپل سے ان معاملات کی نشاندہی کرنے میں عدالت کی مدد کرنے کو کہا گیا ۔عدالت نے تمام درخواستوں پر نوٹس بھی جاری کردیے اور درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر تمام موضوعات زمروں کی فہرست مرتب کرے جس پر عدالت کو مستقبل میں سننے کی ضرورت ہے ۔ سماعت کے دورا ن اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے مرکزی حکومت کی جانب سے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو 143 درخواستوں میں سے صرف 60کی کاپیاں دی گئی ہیں لہٰذا مرکز کو جواب دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ (سی اے اے ) پر سماعت ختم ہونے سے پہلے عدالت عظمیٰ نے دیگر تمام عدالتوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ نئی قانون سازی سے متعلق کوئی حکم پاس نہ کریں ۔ واضح رہے کہ بھارتی شہریت ترمیمی بل (سی اے اے )کے مطابق 31دسمبر 2014ء کو یا اس سے قبل پاکستان ، بنگلا دیش اورافغانستان سے بھارت میں آنے والے ہندو ، سکھ ، بدھ ، عیسائی ،چین اور پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ علاوہ ازیںکشمیر کی خصوصی کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے بھارتی حکومت کے گزشتہ برس 5اگست کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام کے خلاف بھارتی عدالت عظمیٰ میں دائر درخواستوںپر سماعت کا آغازہوگیا۔ جسٹس وی این رمانا، جسٹس سنجے کشش کوال، جسٹس آر ر سبھاش ریڈی ، جسٹس بی اڑ گواہی اورجسٹس سوریہ پر مشتمل 5رکنی آئینی بنچ نے 21 جنوری سے سماعت کا آغاز کیا۔ سماعت شروع ہوتے ہی صحافی پریم شنگر جہا کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل دنیش دویدی او سنجے پاریکھ نے بنج سے معاملہ 7رکنی آئینی بینچ کو بھیجنے کی گزارش کی ۔ دنیش دودی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پورے جموں وکشمیر کے آئین کی منسوخی کے لیے بھارتی آئین کی دفعات کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز(نئی دہلی) اور کشمیر کے درمیان تعلقات کی بنیاد ہی آئین ہند کو دفعہ 370کا وجود تھا اور اسی دفعہ کے تحت جموں وکشمیر بھارتی وفاق کا حصہ بنی تھی جبکہ اس وقت کے آئینی معمار نے بھی تسلیم کیا تھا کہ ریاست جموںوکشمیر خود مختار رہے گی۔ دنیش دودی نے کہا کہ معاہدہ الحاق کے تحت نئی دہلی کے پاس جموںوکشمیر کے حوالے سے قانون سازی کے محدود اختیارات ہیں ۔ ایڈووکیٹ سجنے بارکھ نے کہا کہ معاہدہ الحاق سے مراد عوام کی خواہشات ہیں ۔ وکلا کے دلائل جاری تھے کہ پنچ اٹھ گیا۔