تکبیر اولیٰ مولانا محمد ساجد حسن

4299

 

جو شخص امام کی قرأت شروع ہونے سے پہلے نماز میں شریک ہوجائے تو تکبیر اولیٰ میں شمار ہوگا۔
تکبیر اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ امام جب پہلی مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرے تو مقتدی بھی اسی وقت نماز میں شریک ہوجائے۔
البتہ علمائے کرام کے تعامل سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے اور اسی کے لیے وہ بھاگ دوڑ بھی کرتے تھے۔
تکبیر اولیٰ کی فضیلت
قبیلہ طئی کے ایک شخص نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ مسجد کی طرف نکلے تو تیزی سے چلنے لگے (دوڑنے لگے) تو ان سے کہا گیا کہ آپ خود یہ کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو اس سے خود منع فرماتے ہیں؟ فرمایا: میں نے نماز کی حد یعنی تکبیر اولیٰ کے لیے جلدی کی ہے۔ (الطبرانی فی الکبیر)
جہنم سے برأت
ابوکاہلؓ نے مرفوعاً بیان کیا ہے: جو شخص چالیس دن اور چالیس رات جماعت کے ساتھ تکبیر اولیٰ کو پاتے ہوئے نماز پڑھے تو اللہ پر حق ہے کہ اس کے لیے جہنم سے برأت لکھ دے۔ (الطبرانی فی الکبیر)
سیدنا عمر بن الخطابؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے: جو شخص مسجد میں جماعت کے ساتھ چالیس رات نماز پڑھے اور اس سے نماز عشا کی پہلی رکعت نہ چھوٹے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی وجہ سے جہنم سے آزادی لکھ دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ)
نفاق سے برأت
سیدنا انسؓ نبی اکرمؐ کا فرمان نقل کرتے ہیں: ’’جس شخص نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوقسم کی برأت لکھ دیتے ہیں: 1۔جہنم سے برأت(آزادی) 2۔نفاق سے برأت۔ (ترمذی)
کسی بھی چیز کے دو جز اور حصے ہوتے ہیں۔1۔ ظاہر 2۔باطن۔
ایک چھلکا، ایک اندر کا مغز اور جوہر۔ اندر کا مغز ہی اصل، قیمتی اور خلاصہ ہوتا ہے اور نماز کا خلاصہ و قیمتی جوہر تکبیر اولیٰ ہے۔
تکبیر اولیٰ خلاصۂ نماز ہے
سیدنا عبداللہ بن عوفیؓ سے روایت ہے کہ ہر چیز کا ایک خلاصہ ہوتا ہے۔ ایمان کا خلاصہ نماز ہے اور نماز کا خلاصہ تکبیر اولیٰ ہے۔ (ابی ہریرۃ فی الکامل لابن عدی)
تکبیر اولیٰ کا ثواب ہزار اونٹ کی قربانی سے بھی زیادہ ہے
نماز کی نماز اور قربانی کی قربانی، کیوں کہ ایک روایت میں وارد ہے کہ امام کے ساتھ تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا ایک ہزار اونٹ راہ خدا میں صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (کنزالعمال)
کسی چیز کی فضیلت بیان کرکے اس کی رغبت پیدا کرنا اور عمل پر آمادہ کرنا ہوتا ہے، مگر تاکید کے لیے صراحتاً اس کا حکم دیا جاتا ہے، ذیل کی حدیث شریف میں تکبیر اولیٰ کی محافظت اور پابندی کا صراحتاً حکم دیا جارہا ہے۔
تکبیر اولیٰ کی پابندی کاحکم
ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابو الدرداءؓ کی حدیث سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ بلاشبہ ہر چیز کی ابتدا ہے اور نماز کی ابتدا تکبیر اولیٰ ہے، لہٰذا تم لوگ تکبیر اولیٰ کی پابندی کرو۔ (تلخیص الحبیر)
کثرتِ ثواب، تکبیر اولیٰ کی اہمیت اور فضیلت کے پیش نظر اکابر واسلاف کے یہاں امراض واعذار، حوادث ومصائب کے باوجود برسہا برس تک اس کا خوب اہتمام رہا ہے۔
قاضی محمد بن سماعہ، جو امام ابو یوسفؒ کے شاگرد تھے، فرماتے ہیں کہ چالیس سال تک میری تکبیر اولیٰ کبھی فوت نہیں ہوئی۔ یعنی برابر جماعت میں شریک ہوتا رہا، صرف ایک دن جب میری والدہ ماجدہ فوت ہوگئیں تو جماعت نہ مل سکی، خیال آیا کہ حدیث میں ہے کہ جماعت کی نماز تنہا نماز پڑھنے سے 27 درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے اس نماز کو27 دفعہ پڑھا، تاکہ خسارہ پورا ہوجائے۔ اس کے بعد نیند آگئی اور سوگیا۔ اسی حالت میں کسی کہنے والے نے کہا کہ اے محمد! تم نے ستائیس دفعہ تو نماز پڑھ لی، مگر فرشتوں کی آمین کا کیا ہوگا؟ یعنی سورۃ فاتحہ کے اختتام پر امام آمین کہتا ہے تو اس پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، مگر منفرد اور تنہا آدمی کی آمین پر فرشتوں کی آمین نہیں ہوتی، اس کی طرف اشارہ ہے۔